ہسپتالوں کی غفلت یا موت کے ٹھیکے؟ ثاقب عمر
یہ سوال آج ہر ذی شعور انسان کے دل پر دستک دے رہا ہے کہ ہمارے ہسپتال علاج گاہیں ہیں یا موت کے ٹھیکے؟ غذر میں زچگی کے بعد ایک اور ماں دم توڑ گئی۔ یہ سانحہ کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے نظامِ صحت کی سنگین غفلت کا شاخسانہ ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ایک ماہ قبل ہنزہ میں بھی ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے ایک ماں کے پیٹ میں ہی بچہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اُس وقت عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی۔ تحقیقات ہوئیں، سفارشات تیار ہوئیں، لیکن سب کچھ فائلوں میں دبا دیا گیا۔ اب غذر کے معاملے میں بھی یہی ہوگا۔ شور اٹھے گا، کمیٹی بنے گی، پھر سب کاغذوں کی نذر ہوجائے گا۔
اصل قصور وار کون ہیں؟ وہ ڈاکٹر جو مریض کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں یا وہ اعلیٰ افسران جو کرسی پر بیٹھ کر صرف ٹھیکے داروں اور فارما کمپنیوں کے مفاد میں فیصلے کرتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ نظامِ صحت کے سربراہان عوام کی جان کے محافظ نہیں بلکہ کرسی کے سوداگر بن چکے ہیں۔ ان کے نزدیک اسپتال محض بجٹ کھانے اور ٹھیکے بانٹنے کا ذریعہ ہیں، نہ کہ انسانوں کو بچانے کی جگہ۔
گلگت بلتستان میں صحت کے شعبے پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن نتیجہ عوام کے لیے موت کا پروانہ ہے۔ موبائل اسپتال زنگ آلود کھڑے ہیں، بنیادی مراکز صحت ویران ہیں، اور ضلعی اسپتالوں میں نہ عملہ ہے نہ سہولت۔ لیکن کاغذی رپورٹس میں سب کچھ “بہترین” دکھایا جاتا ہے۔
یہ صورتِ حال دراصل پورے نظام کی موت ہے۔ جب ایک ماں علاج کے بجائے موت کا تحفہ لے کر گھر واپس آتی ہے تو یہ صرف ایک خاندان کا نقصان نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے ضمیر پر بوجھ ہے۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل پھر کسی اور گھر میں چراغ بجھ جائے گا اور ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے۔
اب وقت آگیا ہے کہ عوام سوال کریں: ہمارے ٹیکس کا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ صحت کے اداروں کے اصل مالک عوام ہیں یا چند کرسیوں پر براجمان ٹھیکہ دار اور بیوروکریٹ؟
یہ کالم عوام کی طرف سے ایک مطالبہ ہے: غذر اور ہنزہ کے سانحات کی شفاف تحقیقات کی جائیں، رپورٹس کو عوام کے سامنے لایا جائے اور ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ بصورتِ دیگر یہ غفلت اور سودے بازی کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور ہم سب اجتماعی جرم کے شریک رہیں گے۔
column in urdu,
