column in urdu, 0

آیت اللہ العظمی شیخ علی بوستانی بلتستانی اعلیٰ اللہ مقامہ کی زندگی پے ایک نظر ۔وزیر علی زل(علی آباد)باشہ شگر ، سوانح حیات.
آیت اللہ العظمی شیخ علی بوستانی بلتستانی اعلیٰ اللہ مقامہ کی زندگی پے ایک نظر ۔
آیت اللہ بوستانی 1924 کو شگر کے خوبصورت وادی باشہ کے گاؤں سیسکو میں پیدا ہوئے ، وہاں کئی علماء سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیس سال کی عمر میں اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے نجف اشرف عراق روانہ ہوئے اور بعض معروف اساتذہ اور مجتہدین سے کسبِ فیض حاصل کرکے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور حوزہ علمیہ میں تعلیمی فرائض انجام دینے لگے ،عراق کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کو مدنظر رکھ کر آپ بلتستان واپس آئے پھر دو سال بعد آپ حوزہ علمیہ قم منتقل ہو گئے ،قم میں آپ نے ایک ایرانی خاتون سے شادی کی ۔
آیت اللہ بوستانی حوزہ علمیہ قم کے معروف اساتذہ میں شمار ہوتے تھے ، اس وقت ایران ،پاکستان ،کشمیر وغیرہ میں آپ کے بہت فاضل سے شاگرد خدمت دین میں مصروف ہیں ۔اس کے علاوہ آپ نے فارسی میں بعض کتابیں بھی لکھی ہیں ۔
امام امت کی تحریک کے انقلاب اسلامی ایران میں آپ نے بھرپور شرکت کی امام خمینی کو آپ پر بہت اعتماد تھا ،اسی لیے امام امت آیت اللہ العظمی خمینی اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ائ کی طرف سے پاکستانی طلبہ کے امور میں نمائیندگی بھی فرماتے رہے ہیں ۔
مرحوم آ یت اللہ بوستانی قم میں تدریس کے علاوہ امامت وخطابت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ آ پ علم و فقاہت کے علاوہ زہد و تقویٰ میں بھی یکتائے روزگار تھے ۔
مرحوم آیت اللہ بوستانی ایک فرد نہ تھے بلکہ ایک انجمن اور ایک تحریک تھے ایک جواں ہمت اور فکر کے مالک تھے ۔مرکزیت مدیریت کی صلاحیتوں سے بھرپور تھے ۔تمام پاکستانی بالخصوص بلتستانی طلباء پر یکساں نظر شفقت رکھتے تھے ،از لحاظ علمیت بام عروج پر ہونے کے باوجود بردباری اور انکساری کا بہترین نمونہ تھے ،ہر اختلافات اور تنازعات کا حل کرنا صرف آپ ہی کا کام تھا۔اس طرح آپ ہمیشہ ایک غیر متنازعہ شخصیت کی حیثیت سے حق سرپرستی ادا کیا کرتے تھے ۔
آپ کی ہر بات سے علمیت ،اخلاص اور محبت کی خوشبو آتی تھی آپ کا خطاب اس قدر متین ،علمی اور عام فہم ہوتا تھا کہ سنتے ہی رہنے کو دل چاہتا ہے۔
آپ خلوص کا پیکر علم و عمل کا جوہر ،شفقت،محبت اور اخلاص کا نمونہ،حق گو اور حق خواہ تھے کبھی بھی مصلحت پرستی سے کام نہیں لیتے تھے ۔
آپ جتنا علم تقویٰ زہد اور وقار کی منازل عالیہ پر فائز تھے انتہائی ملنسار ،متواضع،حلیم،خوش اخلاق اور خوش طبع بھی تھے آپ کی مساعی خیر سے ہی قم مقدس میں بلتستانیوں کے لیے ایک مرکز بنام حسینیہ بلتستانیہ معرض وجود میں آیا جو آج بھی ایک بلتستانی مرکز کے طور پر پہچانا جاتا ہے ۔
آپ علالت کی وجہ سے تدریس نہیں کرتے تھے پھر بھی علمی مسائل مشکلہ کو سلجھانے میں اپنی مثال آپ تھے ۔
علیل ہونے کے باوجود آپ مرکزیت اور اجتماعیت کے اعتبار سے ایک صحت مند شخصیت کے مالک تھے ،جب بھی رفع اختلافات اور اجتماعی امور کے لیے آپ کی ضرورت پڑتی تھی تو صحت کا خیال کیئے بغیر میدان میں اترنے والے اولین فرد آپ ہی ہوتے تھے ۔
اسی طرح حسینیہ بلتستانیہ بھی تمام تر مشکلات کے باوجود آپ کے بلند حوصلہ اور ہمت کی بناء پر آج ایک قومی ودینی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔
مرحوم ایک عرصہ سے علیل تھے آپ نے پسماندگان میں بیوہ سمیت دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں آپ کا ایک فرزند اخوند محمد تقی بوستانی اور بھائی شیخ حسین اجھدی شگر میں ترویج دین میں مصروف ہیں ۔واضح رہے کہ اخوند محمد تقی اب اپنے اہل وعیال کے ساتھ ابھی نجف اشرف عراق میں مقیم ہے۔
»»وفات »»
آیت اللہ العظمی شیخ علی بوستانی 23 جنوری 1995 بمطابق 23 شعبان المعظم 1415ہجری کو انتقال کرگئے ۔آیت اللہ العظمی شیخ علی بوستانی بلتستانی اعلیٰ اللہ مقامہ کی زندگی پے ایک نظر ۔وزیر علی زل(علی آباد)باشہ شگر ، سوانح حیات.
column in urdu,

50% LikesVS
50% Dislikes

آیت اللہ العظمی شیخ علی بوستانی بلتستانی اعلیٰ اللہ مقامہ کی زندگی پے ایک نظر ۔وزیر علی زل(علی آباد)باشہ شگر ، سوانح حیات.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں