مارخور, گلگت بلتستان کا حسن یا نیلامی کا شکار, یاسر دانیال صابری
مارخور گلگت بلتستان کے پہاڑوں کا وہ شاہکار ہے جو صرف ایک جانور نہیں بلکہ ایک علامت ہے—قدرت کے حسن، قومی وقار اور ہماری پہچان کی علامت۔ یہ وہ نایاب خزانہ ہے جسے دنیا بھر میں دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں اور جس پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پہچان کو پیسوں کے عوض نیلام کیا جا رہا ہے۔ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے حال ہی میں مارخور کے شکار کا پرمٹ دو لاکھ ڈالر میں نیلام کیا۔ یہ صرف ایک شکار نہیں بلکہ قدرت کے حسن پر تجارت ہے، اور یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہماری زمین اور ہمارا ماحول صرف ڈالر پر منحصر ہے؟
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی غریب شخص اپنے گھر کے لئے گوشت کے طور پر شکار کرے تو اس کو بیس سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، مگر جب کوئی غیر ملکی لاکھوں ڈالر دے کر آتا ہے تو اس کے لئے شکار کو “ٹرافی ہنٹنگ” کا نام دے کر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار کیوں؟ کیا قانون صرف غریب کے لئے ہے اور ڈالر لانے والوں کے لئے سب کچھ مباح ہے؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ مقامی لوگوں کو اپنی زمین پر اپنے وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں، لیکن گوروں کے سامنے ساری وائلڈ لائف کا دروازہ کھلا ہے؟
مارخور کی قیمت ڈالر میں نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ جنگلوں، پہاڑوں اور گھاٹیوں کا حسن ہے۔ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا حصہ ہے۔ اگر آج ہم نے صرف پیسوں کی خاطر اسے شکار ہونے دیا تو کل یہ جانور قصے کہانیوں میں رہ جائے گا، تصویروں میں محفوظ ہوگا یا پھر صرف “نایاب جانور” کے عنوان کے ساتھ کتابوں میں پڑھایا جائے گا۔
یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں کئی مقامی افراد اور بااثر لوگ انہی شکار کے پیسوں سے عیش و عشرت کرتے رہے۔ کروڑوں ڈالر کی نیلامی سے اگر واقعی علاقے کی ترقی ہوتی تو آج گلگت بلتستان کے گاؤں گاؤں میں خوشحالی ہوتی۔ مگر افسوس کہ یہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی اور عوام کے حصے میں غربت اور محرومی آئی۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اس ملک میں گوروں کا راج ہے؟ “ڈالر دو اور قدرتی حسن خراب کرو، ڈالر دو اور دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرو” — کیا یہ ہے ہمارا اصول؟ اگر ہماری دھرتی، ہمارے جانور اور ہمارا ماحول صرف کرنسی کے عوض بیچنے کی چیزیں ہیں تو پھر ہماری آنے والی نسلوں کے لئے کیا بچے گا؟
اب وقت آ گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں اس غیر منصفانہ “ٹرافی ہنٹنگ” پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ وائلڈ لائف کو تحفظ دینے کے لئے سخت قوانین بنائے جائیں۔ مارخور اور دوسرے نایاب جانور ہماری پہچان ہیں، انہیں محفوظ رکھنا ہمارا فرض ہے۔ یہ زمین ہماری ہے، اس کا حسن ہماری امانت ہے اور ہم اسے پیسوں کے لالچ میں بیچنے کے مجرم نہیں بن سکتے۔
اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہماری پہاڑیاں خالی ہوں گی، جنگل سنسان ہوں گے اور ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اس لیے ایک ہی نعرہ کافی ہے:
column in urdu
“مارخور کا شکار بند کرو — گلگت بلتستان کا حسن بچاؤ!”
