column in urdu, 0

ہمارے اجداد کی ماضی اور ہم حقیقت میں آزاد ہے؟ یاسر دانیال صابری
غلامی ایک ایسی حقیقت ہے جسے جتنا بھی نظر انداز کیا جائے، اس کی حقیقت اتنی ہی جابرانہ اور تلخ ہوتی ہے۔ ہم جو آج آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، ہمیں یہ آزادی اپنے اجداد کی قربانیوں کی بدولت ملی ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو کیا ہم حقیقت میں آزاد ہیں؟ کیا ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنے اندر موجود ذہنی اور سیاسی غلامی کو ختم کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں اپنے معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی نظام میں ملتا ہے۔
ہمارے اجداد نے جب انگریزوں کے زیر تسلط زندگی گزارنا شروع کی، تو ان کی حالت انتہائی کسمپرسی کی تھی۔ انگریز نے ہمیں اس قدر دباؤ میں مبتلا کیا کہ ہمارے اجداد کا واحد مقصد صرف زندہ رہنا اور روزانہ کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ انگریزوں کے غلاموں کی حیثیت میں، وہ کئی دہائیوں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔ ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے، نہ کوئی طاقت۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اپنی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ اسی دوران، انگریزوں کے ساتھ غداری کرنے والے بھی تھے، جنہوں نے اپنے مفاد کے لئے ملک کی تقدیر سے کھیل کر اقتدار حاصل کیا۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انگریزوں کی حکومت ایک محدود تعداد میں تھی، مگر انہوں نے ہمیں اپنی قوت کا احساس دلانے کے لئے کئی چالاک طریقے اپنائے۔ انگریز نے ہماری فوج میں ہندوستانیوں کو بھرتی کیا، لیکن ان کی عزت نفس کو توڑا اور انہیں خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا۔ اس کے باوجود، انگریزوں کا زوال ایک دن آنا تھا، لیکن اس دوران ہمارے اجداد کی کئی نسلیں غلامی کی حالت میں زندہ رہیں۔

انگریزوں کی حکومت کا ایک بہت بڑا مقصد مسلمانوں کی مذہبی یکجہتی کو توڑنا اور انہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کرنا تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بہت سے علماء اور مذہبی رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملایا، تاکہ مسلمانوں کے اندر اختلافات بڑھائے جا سکیں۔ مسلمانوں کی مذہبی سوچ اور علمی ترقی کے لئے اس وقت جو شخصیات ابھر کر سامنے آئیں، ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، اور ان میں سے کئی لوگ انگریزوں کے وظائف اور امداد پر پلنے والے تھے۔ ان شخصیات نے لوگوں کی روحانیت اور اتحاد کو تقسیم کیا، جس کا فائدہ انگریزوں کو ہوا۔
یہ سب باتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ غلامی صرف جسمانی ہی نہیں، بلکہ ذہنی اور روحانی بھی ہوتی ہے۔ غلامی کی یہ حقیقت ہماری معاشرتی زندگی میں آج بھی نظر آتی ہے۔ آج بھی ہم اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں، مگر ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم کس حد تک انگریزی نظام اور ذہنیت کے غلام ہیں۔ ہمارے حکمران آج بھی انگریزوں کے زیر اثر کام کرتے ہیں، اور عوام آج بھی وہی اذیت بھری زندگی گزار رہے ہیں، جو ہمارے اجداد نے انگریزوں کے سامنے گزارا تھا۔ حکمرانوں کی عیاشیاں اور عوام کی بدحالی، یہ سب چیزیں آج بھی ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوئے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے معاشرتی نظام میں جو بے انصافی، بدعنوانی اور غربت ہے، وہ غلامی کے آثار ہیں۔ جب تک ہم انگریزی نظام سے آزاد ہو کر اپنے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی معاملات میں اصلاح نہیں لاتے، تب تک ہم آزاد نہیں کہلائے جا سکتے۔ غلامی کے آثار آج بھی ہماری سیاسی جماعتوں، ہمارے مذہبی رہنماؤں اور ہمارے اداروں میں موجود ہیں، جو ہمیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
پاکستان کی موجودہ حالت اس بات کا غماز ہے کہ ہم آج بھی انگریزی وفاداروں کی سلطنت میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے آزادی حاصل کی تھی، مگر وہ آزادی صرف ایک نام کی تھی۔ ہم ابھی بھی اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے غلام ہیں، جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے قوم کی تقدیر سے کھیلتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے لئے عوام کی حالت کبھی بھی ان کی ترجیح نہیں رہی۔ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اور جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، ہم کبھی بھی اپنے اندر کی غلامی کو ختم نہیں کر پائیں گے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ غلامی صرف باہر سے نہیں آتی، بلکہ یہ اندر سے بھی شروع ہوتی ہے۔ جب تک ہم اپنی سوچ اور اپنے نظریات کو آزاد نہیں کرتے، تب تک ہم کبھی بھی اپنی تقدیر کو نہیں بدل سکتے۔ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا اور اس غلامی کو جو ہمارے ذہنوں میں رچ بس چکی ہے، ختم کرنا ہوگا۔
آج ہمارے پاس سب کچھ ہے، آزادی، وسائل اور تعلیم، لیکن اگر ہم نے ان کا صحیح استعمال نہیں کیا تو ہم اپنی غلامی سے کبھی نہیں نکل پائیں گے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہم اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں، یا پھر ہم انگریزوں کی طرح کسی اور کے حکم کے تحت زندگی گزار رہے ہیں؟
یقیناً یہ سوالات ہمیں ہمارے ماضی کی طرف لے جاتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ہمیں اپنی تقدیر کو خود بدلنا ہوگا، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذہنی، روحانی اور سیاسی غلامی سے آزاد ہوں۔ تب ہی ہم اپنے اجداد کی قربانیوں کا حق ادا کر پائیں گے اور اپنے ملک کو حقیقت میں آزاد کر سکیں گے۔
column in urdu,

شگر، یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کا انوکھا اقدام سیل کا بہانہ بناکر ضلع شگر کو سٹور سے محروم کرنے پلان تیار کرلیا ۔ دو سٹوروں کو ضم کرکے ایک سٹور رکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی

ورکرز کو عزت دو. اکرام مشتاق

پاکستان اور آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط کے لیے عملے کی سطح کے معاہدے کے قریب پہنچ گئے

50% LikesVS
50% Dislikes

ہمارے اجداد کی ماضی اور ہم حقیقت میں آزاد ہے؟ یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں