منشیات فروشوں کا خاتمہ ، یاسر دانیال صابری
منشیات کا استعمال پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف ملک کے نوجوانوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے بلکہ پورے سماجی ڈھانچے کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ یہ ایک ایسا بحران ہے جس نے مختلف شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 70 لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور یہ تعداد ہر دن بڑھتی جا رہی ہے۔ منشیات کے استعمال کا یہ مسئلہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف شدت کے ساتھ موجود ہے، مگر اس کی سب سے زیادہ تباہی نوجوان نسل میں ہو رہی ہے۔نوجوانوں کا منشیات کی طرف مائل ہونا ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر حکومت اور معاشرے کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تعلیمی ادارے، جنہیں معاشرتی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، خود منشیات کے استعمال کے حوالے سے ایک خطرناک جگہ بن چکے ہیں۔ اس صورت حال نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ منشیات کا استعمال محض فرد تک محدود نہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کے استعمال کی طرف مائل ہو رہی ہے، جس کی وجہ معاشی مسائل، گھریلو ناخوشگوار حالات، ذہنی دباؤ، اور سوشل میڈیا پر منشیات کے بارے میں منفی اثرات ہیں۔منشیات کے استعمال سے ایک فرد کی صحت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ انتہائی سنگین ہیں یہ نہ صرف جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ذہنی اور جذباتی صحت پر بھی گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ منشیات کے استعمال سے انسان کی جسمانی توانائی کم ہو جاتی ہے، اس کے مدافعتی نظام پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، منشیات کے اثرات فرد کی ذہنی حالت کو بھی متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور اس کی سوچنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس سے فرد کے سماجی تعلقات متاثر ہوتے ہیں اور وہ اپنے دوستوں، خاندان اور کام کی جگہ پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جہاں روزگار کے مواقع کی کمی اور معاشی مسائل کے باعث نوجوان اس طرح کی بری عادات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ منشیات کا استعمال بعض افراد کے لیے ایک عارضی سکون کا باعث بن سکتا ہے، مگر اس کا اثر طویل مدتی ہوتا ہے اور یہ ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ منشیات کے استعمال سے فرد کی ذہنی حالت خراب ہوتی ہے اور وہ سماج میں موجود دیگر منفی رویوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے جیسے کہ جرائم اور بدکاری۔
منشیات میں ملوث مافیا اور گروہ ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ گروہ نوجوانوں کو اپنے دام میں پھنساتے ہیں اور انہیں منشیات فراہم کرتے ہیں۔ ان گروپوں کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور انہیں ختم کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ منشیات کی فروخت اور اسمگلنگ کا یہ دھندہ ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے ذریعے لاکھوں روپے کا منافع کمایا جاتا ہے۔ ان گروپوں کے خلاف حکومت کی کارروائیاں عموماً ناکافی ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کی کمی ہے۔ اس لیے منشیات کے کاروبار کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو انسداد منشیات کی فورس کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں منشیات کی فروخت اور استعمال کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں قانونی سختی، پولیس کی فورس کو مضبوط کرنا، اور انسداد منشیات کی اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھانا شامل ہے۔ منشیات کے عادی افراد کے لیے بحالی کے مراکز کا قیام بھی ایک اہم قدم ہے۔ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے مناسب اور مؤثر مراکز کی کمی ہے۔ یہ بحالی کے مراکز حکومت کے زیر انتظام ہونے چاہیے تاکہ ہر فرد کو یکساں اور معیاری علاج کی سہولت مل سکے۔ نجی سطح پر موجود مراکز زیادہ تر مہنگے ہیں اور غریب افراد کے لیے ان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو ان مراکز کی تعداد بڑھانی چاہیے اور انہیں غریب افراد کے لیے دستیاب بنانا چاہیے۔
منشیات کے عادی افراد کے علاج کے مراکز میں انہیں جسمانی اور نفسیاتی علاج کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے نشے سے نجات حاصل کر سکیں۔ ان مراکز میں گروپ تھراپی، فردی مشاورت اور دوسرے علاجی پروگرامز کا انعقاد کیا جا سکتا ہے تاکہ مریضوں کو منشیات کی لعنت سے نجات دلائی جا سکے۔ اس کے علاوہ، ان افراد کو معاشرتی سطح پر دوبارہ فعال بنانے کے لیے مختلف قسم کے تربیتی پروگرامز بھی شروع کیے جانے چاہییں تاکہ وہ دوبارہ معاشرتی طور پر ذمہ دار شہری بن سکیں۔
پاکستان میں منشیات کے بارے میں عوامی آگاہی بھی انتہائی ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے خطرات کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے خصوصی پروگرامز کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال اس مقصد کے لیے بہت مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ منشیات کے استعمال کے بارے میں عوامی سطح پر آگاہی پیدا کرنا اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، والدین کو بھی اپنے بچوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے تاکہ وہ منشیات کے خطرات سے بچ سکیں۔ تعلیمی اداروں میں اس موضوع پر ورکشاپس، سیمینارز اور آگاہی کی مہمات کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو منشیات کے کاروبار کے خلاف سخت قانونی اقدامات کرنے ہوں گے۔ منشیات کی اسمگلنگ اور فروخت کے خلاف قوانین کو مزید سخت بنایا جانا چاہیے اور ان قوانین کا بھرپور نفاذ کرنا چاہیے۔ پولیس اور انسداد منشیات کی فورس کو جدید آلات اور ٹیکنالوجی فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ اس کاروبار کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر سکیں۔ اس کے علاوہ، منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کو تیز تر اور شفاف بنایا جانا چاہیے تاکہ اس کاروبار کا خاتمہ ہو سکے۔
پاکستان میں منشیات کے استعمال اور فروخت کو روکنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اس حکمت عملی میں قانونی اقدامات، آگاہی کی مہمات، پولیس کی صلاحیتوں میں بہتری اور بحالی کے مراکز کی تعداد میں اضافہ شامل ہو گا۔ اس کے علاوہ، معاشی ترقی کے پروگرامز کو بھی متعارف کرایا جانا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو منشیات کے استعمال کی طرف راغب ہونے سے روکا جا سکے۔ معاشی خوشحالی اور بہتر روزگار کے مواقع کے ذریعے منشیات کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں منشیات کے مسئلے کا حل ممکن ہے، لیکن اس کے لیے حکومت، معاشرتی اداروں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ منشیات کے خلاف ایک مضبوط اور مؤثر حکمت عملی اپنانے سے پاکستان میں اس لعنت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نوجوانوں کو ایک بہتر مستقبل فراہم کیا جا سکتا ہے۔
تحریر :یاسر دانیال صابری
column in urdu
چیف جسٹس نے غیر معمولی اجلاس میں عدالتی اصلاحات، آئینی ‘ترمیم’ پر آئی ایم ایف مشن کو بریفنگ دی