اونٹ بیٹھ گیا ! پروفیسر قیصر عباس
اونٹ بیٹھ گیا ! پروفیسر قیصر عباس
گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ٫پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں ایک ہی خبر “ہاٹ کیک” بنی ہوئی تھی کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں چیف جسٹس کی کرسی پر کون براجمان ہوگا؟کیا جوڈیشل ریفرمز پر مبنی 26 ویں ترمیم پایا تکمیل تک پہنچے گی یا نہیں ؟ لیکن آخر کار حکومت وقت 26ویں آئینی ترمیم پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے تین سنئیر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ ٫جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا پینل بنا اور ایک بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان بنانے کی سفارش کر دی۔ یوں جو اونٹ ایک ماہ سے کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا تھا٫ بیٹھ گیا اور یحییٰ آفریدی چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے ہیں۔پاکستانی سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اگر حکومت وقت 26ویں آئینی ترمیم پاس نہ کرواتی تو آج چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نہ ہوتے بلکہ سنئیر ترین جج منصور علی شاہ ہوتے ۔اس ترمیم کو پاس کروانے کے لئے حکومت کو دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار تھی یعنی سینیٹ سے 64 ووٹ چاہے تھے اور قومی اسمبلی سے 224 جس کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری روزانہ کی بنیاد پر جے یو آئی سے ووٹ مانگنے مولانا فضل الرحمان کے گھر تشریف لے جاتے تھے ۔چونکہ حکومت وقت ایک آئینی عدالت کی تشکیل چاہتی تھی جس میں تمام آئینی مقدمات سنے جائیں ۔مگر مولانا نے اس آئینی عدالت کی تشکیل پر اعتراض کیا اور تعاون نہ کیا اس کے بعد آئینی بنچ کی تشکیل اور چیف جسٹس کے لئے تین سنئیر ترین ججز کے پینل بنانے پر اتفاق ہوا۔لیکن اس ترمیم کو پاس کروانے کے لئے حکومت کو قومی اسمبلی میں پانچ اراکین کے ووٹوں کی ضرورت تھی یہ پانچ ارکان جو باظاہر تو آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے مگر یہ سب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تھے اس لئے ان پانچ اراکین جن کے نام یہ ہیں اورنگزیب زیب کچھی٫چوہدری الیاس ٫مبارک زیب ٫مقداد علی اور چوہدری عثمان علی انہوں نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دئیے ۔ان اراکین قومی اسمبلی کے ووٹ سے آئین میں 26ویں ترمیم ہوگئی۔اس سارے عمل میں تحریک انصاف مولانا فضل الرحمان کو اس بات پر قائل کرتی رہی کہ مولانا اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیں ۔دوسری طرف مولانا تحریک انصاف کو اپنے مسودہ پر ووٹ دینے کے لئے مناتے رہے لیکن اس سارے عمل کا ڈراپ سین یہ ہوا کہ حکومت مولانا کو منانے میں کامیاب ہوگئی۔ لیکن تحریک انصاف نے مجموعی طور پر اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیا ۔ایک وقت تھا جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا نام آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر ٹاپ پر تھا مگر پھر آئینی بنچ کی تشکیل کی وجہ سے قاضی فائز عیسیٰ صاحب آئینی عدالت کے سربراہ نہ بن سکے کیونکہ آئینی عدالت ہی نہ بن سکی ۔مگر اس سارے منظر نامے میں قاضی فائز عیسیٰ کے کردار کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اگرچہ قاضی صاحب نے بطور جج بہت اچھے فیصلے بھی دئیے خاص کر فیض آباد دھرنے والے کیس نے بڑی شہرت پائی جس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی سیاست میں کردار پر بڑی تنقید کی گئی ۔لیکن جونہی قاضی صاحب چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو ان کی شخصیت کا ایک نیا رخ سامنے آیا خاص کر ایک سیاسی جماعت کو عام انتخابات سے پہلے انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا ۔کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق قاضی صاحب نے اس لئے ایسا کیا کیونکہ اس جماعت کے دور حکومت میں قاضی صاحب کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور صدر صاحب کا تعلق اسی جماعت سے تھا ۔خیر وقت گزر گیا معاملہ جب مخصوص نشستوں کا سامنے آیا تو سپریم کورٹ کے ایک بنچ جس کی سربراہی جسٹس منصور علی شاہ کر رہے تھے ٫ نے اکثریتی فیصلہ میں مخصوص نشستوں پر اسی جماعت کا حق تسلیم کیا جس جماعت کو قاضی فائز عیسیٰ نے انتخابی نشان سے محروم کیا تھا ۔یوں سپریم کورٹ میں ہی ایک “خانہ جنگی” شروع ہوگئی ۔ایک وقت تھا جب قاضی صاحب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار کے خلاف تھے اور قاضی صاحب کا موقف تھا کہ سوموٹو اختیار صرف چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس نہیں ہونا چاہے بلکہ سنئیر ترین ججز کا ایک پینل ہونا چاہے جس کے پاس سوموٹو اختیار ہونا چاہے اس کے علاؤہ چیف جسٹس کے پاس بنچ تشکیل دینے کا اختیار بھی نہیں ہونا چاہے کیونکہ اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ہم خیال ججز پر مشتمل بنچز تشکیل دے کر مرضی کے فیصلے کئے جاتے ہیں ۔اس کام کو روکنے کے لئے حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پاس کروایا مگر یہ بل سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا اور اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔جب قاضی صاحب خود چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو حکومت نے ترمیم شدہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس نافذ کیا جس کی مدد سے قاضی صاحب نے سنئیر ترین ججز کی کمیٹی سے جسٹس منیب اختر کو نکال کر ہم خیال ججز جسٹس نعیم افغان اور جسٹس امین الدین خان کو شامل کر کے 63 اے کا وہ فیصلہ جس میں سابق چیف جسٹس عمر عطا اور دیگر ججز نے لکھا تھا کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ اپنے جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا تو نہ اس کا ووٹ شمار ہوگا بلکہ وہ رکن پارلیمنٹ بھی ڈی سیٹ ہو جائے گا اس طرح” لوٹاکریسی” اور” ہارس ٹریڈنگ” کاراستہ روکا گیا تھا۔قاضی صاحب نے اس فیصلہ پر نظرثانی اپیل سنی اور اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر “ہارس ٹریڈنگ” کا راستہ دوبارا کھول دیا۔اسی 63 اے کا سہارا لیکر حکومت وقت نے ان پانچ اراکین اسمبلی سے ووٹ حاصل کرکے 26ویں ترمیم پاس کروا کر جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکا ۔لیکن ان ساری کار گزاریوں کے باوجود قاضی صاحب آئینی عدالت کے سربراہ نہ بن سکے ۔اب یہ سب تاریخ پر چھوڑا جائے کہ تاریخ قاضی فائز عیسیٰ کو کس طرح یاد رکھے گی؟ کیا انہیں پارلیمان سپریم ادراہ سمجھنے والوں میں یاد رکھا جائے گا یا پھر اعلیٰ عدلیہ کے اخیتارات کو کم کروانے والوں اور اس ادارے کے ساتھ بے وفائی کرنے والوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس ادارے کی وجہ سے لوگ آج قاضی فائز عیسیٰ کے نام سے واقف ہیں ۔