یحییٰ سنوار بھی بربریت کا شکار! پروفیسر قیصر عباس
یحییٰ سنوار بھی بربریت کا شکار! پروفیسر قیصر عباس
فلسطینی مزاحمتی جماعت حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی اسرائیلی بربریت کا شکار ہو کر جام شہادت نوش فرما گئے۔گزشتہ روز اسرائیلی فورسز کی جانب سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔یاد رہے اس سے پہلے حماس کے سربراہ اور فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر اعظم اسماعیل ہانیہ کو ایران کے شہر تہران میں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کے لئے مہمان خصوصی کے طور پر ایران میں تشریف لائے تھے ۔اسے سفارتی سطح پر ایران کی بطور ریاست ناکامی تصور کیا جائے گا کہ ایرانی ایجنسیز اپنے گھر میں آئے ہوئے ہائی پروفائل مہمان کی حفاظت نہیں کر سکیں۔ اس پر ایران حکومت کو ہدف تنقید بنایا گیا اور ایسا ہونا بھی چاہئے تھا ۔اس کے بعد ایران نے بدلہ لینے کا اعلان کیا اسرائیل کی طرف میزائل داغے اس کا کیا نتیجہ نکلا ؟اس پر مکمل خاموشی ہے ۔اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو نشانہ بنایا گیا اس حملے میں سید حسن نصر اللہ بھی شہید ہوگئے ۔جب کہ حزب اللہ نے نئے سربراہ سید ہاشم صفی الدین کا بطور سربراہ اعلان کیا مگر شنید ہے کہ وہ بھی اسی حملے میں شہید ہو چکے ہیں ۔اس سے پہلے ایران کے سابق صدر کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا اس کے بارے بھی یہی اطلاعات آتی رہیں ہیں کہ یہ حادثہ قدرتی نہیں ہے بلکہ اس ہیلی کاپٹر کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ایک ایک کر کے ایرانی حمایت یافتہ شخصیات کو نشانہ بنایا گیا لیکن ایران فلحال اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں مغرب اور امریکہ کھڑا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے تو یحییٰ سنوار کی شہادت پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو مبارک باد بھی دی ہے اور اس شہادت کو اسرائیل کی ایک بڑی کامیابی بھی قرار دیا ہے ۔جوبائیڈن نے یحیٰی سنوار کی شہادت کو دنیا کے لئے ایک اچھا دن قرار دیا ہے۔جوبائیڈن نے یہ بھی کہا کہ” غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہٹ گئی ہے ٫ یہ اسرائیل٫امریکہ اور دنیا کے لئے ایک اچھا دن ہے۔” جوبائیڈن کا مزید کہنا تھا کہ” اب موقع ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کو یکساں طور ایک اچھا مستقبل فراہم کیا جائے ۔”موجودہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے یحیٰی سنوار کی موت کو غزہ میں جنگ کے خاتمے کا ایک بہتر موقع قرار دیا ہے۔جب کہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی حلیوی نے سنوار کی شہادت پر کہا کہ” 7 اکتوبر کے حملے میں ملوث تمام عسکریت پسندوں کے پکڑے جانے تک لڑتے رہے گے۔”امریکہ ٫فرانس٫جرمنی٫ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نےحماس پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے رہنما یحییٰ سنوار کی موت کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چونکہ اگلے مہینے امریکہ میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے اور امریکہ میں اسرائیل کی حمایت یافتہ ایک بڑی لابی موجود ہے جو امریکی صدر کی فتح اور شکست میں اہم کردار ادا کرتی ہے اس لئے کوئی بھی شخص جو امریکہ کا صدر بننا چاہتا ہے وہ کسی صورت بھی اس لابی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اس لابی کو ناراض کرنے سے مراد اسرائیل کی ناراضگی ہے ۔اگر یحییٰ سنوار کی جد وجہد کی بات کی جائے تو 61 سالہ یحییٰ سنوار غزہ کے پناہ گزین کمیپ خان یونس میں پیدا ہوئے ۔1987ءمیں جب حماس کی بنیاد رکھی گئی تو وہ اس کے ابتدائی ارکان میں شامل تھے ۔حماس کے سابق سربراہ شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھیوں میں یحییٰ سنوار کا شمار ہوتا تھا۔اسرائیل نے 1980ء کی دہائی میں انہیں گرفتار کیا۔ان پر بارہ اسرائیلیوں کو قتل کرنے کا الزام تھا ۔اسرائیلی عدالتوں نے انہیں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی ۔لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 2011ء میں انہیں رہا کیا ان کی رہائی اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں ہوئی جسے حماس نے سرحد پار کرتے ہوئے حراست میں لیا تھا۔2008 میں یحییٰ سنوار دماغی کینسر کا شکار بھی ہوئے مگر اس خطرناک بیماری سے اسرائیلی ڈاکٹرز کی کوششوں سے صحت یاب ہوئے ۔غزہ واپسی پر یحییٰ سنوار نے بڑی شہرت حاصل کی اسی وجہ سے 2015ء میں یحییٰ سنوار کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد انہیں حماس کا نیا سربراہ چنا گیا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسماعیل ہانیہ کی نسبت یحییٰ سنوار زیادہ سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں ۔بلکہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد تجزیہ نگاروں کے مطابق” اب حماس کی قیادت ایسے شخص کے ہاتھ میں آگئی ہے جو بات چیت سے زیادہ ہتھیار پر یقین رکھتا ہے اور مزاکرات کی بجائے عسکری جدوجہد پر زیادہ بھروسہ رکھتا ہے۔”بہرحال یحییٰ سنوار کی شہادت اگرچہ فلسطینی عوام کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے لیکن یہ بات بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تحریکیں شخصیات کی محتاج نہیں ہوتی ۔نظریات کو مارا نہیں جا سکتا ۔جب کسی بھی تحریک کا کوئی رہنما منظر نامہ سے اوجھل ہوتا ہے تو اس کی جگہ افک پر ایک نیا ستارا رونما ہوتا ہے ۔کیونکہ شخصیات کو مارا جا سکتا ہے نظریات کو نہیں ۔ column in urdu
پروفیسر قیصر عباس ۔