فکری اختلاف اور اس کا رد عمل- نذیر بیسپا
فکری اختلاف اور اس کا رد عمل
ہماری زمین پر حیات کی کروڑوں شکلیں ہیں اور ان سب میں انسان سب سے ممتاز، منفرد اور خودمختار ہے کیوں کہ انسان عقل و خرد کا مالک ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہے۔ شاید اسی لیے سترہویں صدی عیسوی کے فرانسیسی ریاضی دان اور فلسفی رینے ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ میں سوچتا ہوں اس لئے میں ہوں۔ گویا ان کے بقول ہمارا وجود ہی ہماری سوچ پر منحصر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل و خرد اور تجربات کی بنیاد پر انسان کی سوچ بدلتی رہتی ہے، انسان کے عقاید و نظریات بدلتے رہتے ہیں اور اسی سے انسانی سماج ارتقا کی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ نئے افکار اور نئی اشیا قدیم کی جگہ لے لیتی ہیں۔ انسانوں کی معلوم تاریخ میں فکری ارتقا کو بہت اہم مقام حاصل ہے کیوں کہ جہاں دنیا کی تمام تر ترقی کا دارومدار روایتی انداز فکر سے ہٹ کر سوچنے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں وہیں سماج کی غالب سوچ اور بیانیے کی مخالف سمت میں سوچنے کی پاداش میں لاکھوں معصوم انسانوں کی زندگی کے چراغ بھی گل کر دئے ہیں۔ قدیم و جدید کی یہ فکری کشمکش ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور تو کیا جا سکتا ہے لیکن سوچوں پر قدغن نہیں لگایا جا سکتا اسی لئے آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں دنیا کو فتح کرنے والے بادشاہوں سے زیادہ مفکرین کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ جوں جوں انساں ارتقا کا سفر طے کرتے ہوئے ایک تہذیبی دور سے دوسرے تہذیبی دور میں داخل ہوتا گیا فکری تبدیلی کی رفتار میں بھی شدت اور جدت آتی گئی۔ حجری دور سے شروع ہونے والا سفر اب ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ آج انسان کی سوچ ہر دور سے زیادہ تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج کے انسان کا تصور حیات،تصور کائنات، تصور سماج، تصور زمان، تصور مکان، تصور خدا، تصور دین و مذہب جیسے غیر مادی تصورات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں۔اس لئے سوچوں کا اختلاف بھی ہر دور سے زیادہ اسی دور میں پایا جاتا ہے۔ جب تصورات و نظریات کا یہ اختلاف قوموں کے درمیان نظر آتا ہے تو وہ تہذیبوں کا تصادم کہلاتا ہے لیکن اس دور میں ایک قوم کے افراد کے باہم بھی فکری اور نظریاتی اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ فکری اختلافات ارتقا اور پیشرفت کی بنیاد ہے لیکن فکری تصادم یا سوچ کی بنیاد پر معاشرے کے مختلف طبقات میں ٹکراؤ اور دشمنی کسی بھی صورت سماج کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ لہذا ہمیں فکری اختلافات کو قبول کرتے ہوئے تصادم سے بچنے کے لیے کچھ اصولوں کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
• ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ افکار و نظریات بحث و مباحثے سے پروان چڑھتے ہیں لیکن کوئی سوچ مقدس نہیں ہے اس فکر کے محاسن و معایب پر ہر قسم کے تبصرے اور تجزئے کو قبول کر لینا چاہئے لیکن یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کسی کی ذات، خاندان، نسل پر تنقید نہ کی جائے۔
• بحث و مباحثے میں یہ اصول ہمیشہ پیش نظر ہونا چاہئے کہ گفتگو افکار و نظریات کی حد تک ہونی چاہئے لیکن ہمیں اپنے مد مقابل کے ان پہلوؤں پر کبھی بات نہیں کرنی چاہئے جن کے رکھنے یا نہ رکھنے میں اس کا اختیار شامل نہ ہو۔ مثلاً اس کا رنگ، قدقامت، جسامت، معذوری یا خاندان وغیرہ جو اس نے مرضی سے نہیں اپنائے ہیں۔
• مباحثے یا فکری اختلاف کی صورت میں مد مقابل کو مہذب انداز میں دلیلوں سے قانع کرنے کی کوشش کریں۔ اگر دلیل نہیں ہے تو خاموشی اختیار کر لیں لیکن سامنے والے کو “ملحد”، “منافق”، “لعنتی”، “بیرونی ایجنٹ” جیسے توہین آمیز خطابات سے نہ نوازیں اور نہ ہی گالیاں دیں۔ میں نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ زیادہ تر مذہبی سوچ رکھنے والے افراد دلیل کی بجائے لعن طعن سے کام لیتے ہیں جس کا ایک شکار میں خود بھی بنتا رہا ہوں۔
• ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہر انسان کو سیاست، مذہب، سماج جیسے موضوعات پر بات کرنے یا نظریہ رکھنے کا حق ہے۔ اگر کسی کوکوئی طرز سیاست، طرز معاشرت یا طرز دیانت ناپسند ہو اور آپ سے مخالف نظریہ رکھتا ہو تو اسے نظریاتی اختلاف کی حد تک رکھیں، دشمنی یا تصادم میں تبدیل نہ کریں۔
• اگر کوئی شخص معاشرے کی خامیاں بیان کرتا ہے تو یہ دیکھیں کہ اس کی بات میں کس حد تک صداقت ہے۔اگر اس بات میں سچائی ہے تو کوشش کریں کہ ان خامیوں کو برطرف کریں تاکہ معاشرے کی اصلاح ہو اور اگر الزام ہے تو جواب مانگیں لیکن بدزبانی اور فحش و دشنام سے اپنی تربیت کو داغدار نہ کریں۔
• اگر کوئی شخص آپ سے مختلف نظریہ، عقیدہ یا فرقہ رکھتا ہو یا آپ کے برعکس اگر ماورائے فطرت کی بجائے عقل و خرد کو فوقیت دیتا ہو تو اسےمردود یا گمراہ قرار دینے کی بجائے آپ کو بھی اگلے کے موقف کا احترام رکھنا چاہئے کیوں کہ احترام کا تعلق دو طرفہ ہوتا ہے یک طرفہ نہیں۔
• کسی کی بھی بات کو صبر و تحمل سے سننے کی صلاحیت پیدا کریں اور جواب دینے سے پہلے کئی بار غور و فکر کریں۔اگلے کی بات کو مکمل سمجھنے کے بعد جواب دیں۔ کوئي ناپسندیدہ لفظ یا پسندیدہ شخص یا نظرئے کا نام دیکھتے یا سنتے ہی جلد بازی میں جذباتی جواب ہرگز نہ دیں۔