عرب کا اونٹ، حاجی شبیر احمد شگری
عرب کا اونٹ، حاجی شبیر احمد شگری
مسئلہ فلسطین دراصل ہے کیا اور اس کی ابتدا کیسے ہوئی ہے؟۔ یہودی جو کہ ایک ناپسندیدہ قوم تھی جس سے دنیا تنگ تھی لیکن ایک امن پسند اور مہمان نواز عرب علاقے میں گُھس کا غاصب بن بیٹھی اور آج دنیا کی معیشت پر تسلط جمائےبیٹھی ہے۔ حتٰی کہ آج دنیا میں کہیں بھی یہودی پیدا ہوتا ہے تو اسے خود بخوداسرائیلی نیشنلٹی مل جاتی ہے۔ یہودی انتہائی چالاک، مکارمگربزدل قوم ہے۔ مگر استعمار کی پشت پناہی کے سر پر ڈینگیں مارتا ہے۔ حال ہی میں طوفان الاقصٰی آپریشن سے اسرائیل کے پاؤں اکھڑ گئے اور اس پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ بڑے عہدیداروں کے استعفے آنے شروع ہوگئے تھے۔ اور فورا ہی امریکہ اس کوتھپکی دینے پہنچ گیا ۔
یہودی ہیں کون؟ یہودپیغمبروں کے پیروکار ہیں لیکن خدائی احکامات سے انکارکی وجہ ہے ان پر عذاب بھی نازل ہوئے۔ کبھی بابلی لشکر نے یہود کا قتل عام کیا تو کبھی فارس فوج نے انہیں غلام بنا لیا۔ رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس سے نکال باہر کیا تھا۔ یہود ہی حضرت عیسیٰؑ کے قاتل تھے۔ اسی لیے فلسطین پر عیسائیوں کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی ان سے برا سلوک کیا۔ اس لئےان کے ساتھ عیسائی عوام کا سلوک اچھا نہیں تھا۔ اس وجہ سے بہت سے یہود نے اسلامی ممالک میں پناہ لی جہاں وہ جزیہ دے کر امن ‘ شہری حقوق اور آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔یہودی وہ قوم تھے جن کے کرتوت صحیح نہیں تھے اس لئے یورپی یہودیوں کے روزمرہ کے رویوں، انفرادی گندگی اور سماجی خرابیوں، مذہبی داستانوں اور عجیب و غریب رسومات سے تنگ آچکے تھے۔ اورمغرب میں یہود سے نفرت کی جاتی تھی۔
یہودی ایسی مطلبی قوم ہے کہ جس نے ان کے ساتھ اچھا کیا اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ جرمنی نومبر 1918 میں پہلی جنگ عظیم ہارا تو وہ دعوی کرتے ہیں کہ جرمنی کو عسکری طور پر شکست نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ یہودیوں سمیت، اندرونی دشمنوں نے جرمنی کے ساتھ غداری کی تھی۔ وہ اس نظریہ کو “پیٹھ میں چھرا گھونپنا” کہتے ہیں۔ ہٹلر جس نے یہودیوں کو تباہ و برباد کردیا تھا تو کچھ کو چھوڑ دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا تھا کہ وہ کچھ یہودیوں کو اس لئے چھوڑ رہا ہے تاکہ دنیا دیکھ لے کہ اس نے یہودیوں کوکیوں مارا تھا۔ اور واقعی آج ہم دیکھ رہے ہیں۔
1947 میں فلسطین کے شمال میں واقع بندرگاہ حیفہ کی ایک تصویر آج کل وائرل ہوئی ہے جو کہ فلسطین کی طرف بھاگ کر پناہ لینے کے لئے آنے والے 4500 یہودی پناہ گزینوں کے جہاز کی تصویر ہے ۔ یہودی پناہ گزینوں کے جہاز کے عرشے پر یہ جملہ لکھا ہواہے کہ The Germans destroyed our family don’t you destroy our hope یعنی “جرمنی نے ہمارے گھروں اور رہائشگاہوں کو تباہ کر دیا، براہ مہربانی فلسطینیوں، ہماری امید کو تباہ نہ کریں”۔ ذرا سوچیں ان بے شرم احسان فراموش یہودی رحم اور ہمدردی کی بھیک مانگتے ہوئے فلسطین میں داخل ہورہے تھے۔ اب 76 سال بعد فلسطین کی سرزمین سے ہی انکار کر رہے ہیں۔اورآج کس بے شرمی سے کہا جاتا ہے کہ فلسطین کی زمینیں خریدی گئی تھیں۔
کاش کہ اس وقت فلسطینی ہٹلر کی اس بات پر ہی غور کرلیتے ۔اور انھیں پناہ نہ دیتے۔ لیکن کیا کریں ان عربوں کا جن کی مہمان نوازی کی عادت نے اس جیسی مکار قوم کی مہمان نوازی کی ان کو پناہ دی۔یہاں فلسطینی عربوں پر عرب کے اونٹ کی مثال بالکل صادق آتی ہے جو پہلے خیمے میں گردن ڈالتا ہے اور پھر پورا گھس جاتا ہے۔ پھر مالک کو ہی خیمے سے نکال باہر کرنے کی سوچتا ہے۔ اور یہودیوں نے بالکل اسی طرح ہی فلسطین میں گھس کر خود انھیں نکال باہر کرنا شروع کیا۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ یہودی سب سے پہلے کب اور کیسے فلسطین پہنچے فلسطین آکرانھوں نے کیا خباثتیں کیں۔ اور کیسے دھوکے سے اپنا مقام بنایا اور فلسطین پر قابض ہوئے۔
عرب سخی اور فیاض کے لوگ ہیں وہ اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں ۔وہ لوگ جنہوں نے ان میں پناہ لی، مدد مانگی اور مدد کی توقع کی، سلامتی چاہتے تھے اور اس وقت سلامتی کی تلاش میں تھے۔فلسطینی عربوں نے، اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کا مظاہرہ ، اور اپنے پیر پر کلہاڑی مارتے ہوئے ہوئے ، 1880 میں یورپ میں جبر سے بھاگنے والے بہت سے یہودیوں کو قبول کیا ۔ حالانکہ اس وقت عربوں نے یورپ میں یہودیوں کے ساتھ بد سلوکی اور بدعنوانی کی خبریں سنی تھیں۔ وہ قوم جس نے پیسے اور تجارت سے بدعنوانی کی اور یورپیوں کو قرضوں میں ڈبو کر ان پر دباؤ ڈالا۔ اس وقت یورپی یہودیوں کے رویوں، سماجی خرابیوں، اور عجیب و غریب رسومات سے تنگ آچکےتھے ۔
تاہم فلسطینی عربوں نے یورپیوں کی شکایات پر کان نہیں دھرے، جس کی سزا آج وہ بھگت رہے ہیں۔ فلسطین میں آنے والے یہودیوں میں یورپ سے بھاگے ہوئے یہودیوں کا ایک گروہ بھی تھا جس کی قیادت یوسف بن رحیم کر رہا تھا۔ جو یروشلم میں داخل ہوئے۔ اس وقت قدس وسیع و عریض شہر اور اسلامی شہروں کی دلہن تھا۔ قدس ایک پاکیزہ مقدس مقام تھا جہاں کے باشندوں پر ظلم نہیں ہوتا تھا، اس کے لوگ بھوکے نہیں مرتے تھے۔ یوسف بن رحیم نےشیخ جراح کے محلے میں پناہ لی۔ جوخوبصورت فن تعمیر، سرسبز اور پھل دار درختوں، منفرد گلیوں اور باغات والا محلہ جو اسے یروشلم کے دوسرے محلوں سے ممتاز کرتا ہے ۔ یہاں انھیں یروشلم کے شیخ جراح محلے میں عثمانی نظام کے مطابق 99 سال کی مدت کے لیے ایک پلاٹ لیز پر دینے پر اتفاق کیا۔یہاں غور کریں انھیں لیز پر جگہ دی جارہی ہے نہ کہ فروخت کی جارہی ہے۔اوریروشلم میں بے گھر یہودیوں کو غیر ملکی شہری سمجھا جاتا تھا اور وہ عثمانی قانون کے تابع تھے، جس نے یروشلم کی زمینوں پر قبضہ محدود کر دیا تھا ۔
یہودی پناہ گزینوں کاسالانہ کرایہ کی ادائیگیوں کے ساتھ قیام 1948 کی جنگ تک رہا۔جب صہیونیوں نے القدس شہر کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا اور شیخ جراح کے محلے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد یہودی باشندے اس خوف سے وہاں سے فرار ہو گئے کہ فلسطینی اور اردنی ان سے بدلہ لیں گے۔ اور فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا، تمام فلسطینی مغربی یروشلم چھوڑ کر چلے گئے اور مشرقی یروشلم میں کوئی یہودی باقی نہیں رہا۔ اس کے بعد سے عرب اور یہودی علاقوں کے درمیان تنازع اور کشیدگی شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے ۔
یہ شیخ جراح کے محلے کی کہانی ہے جنھوں نےاپنی بدقسمتی سے ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جو رحم کے مستحق نہیں تھے۔ بُرا اور ناپاک رویہ اور چالبازی، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، غاصبانہ قبضہ اور ناجائز حصول ان کی زندگی کے بنیادی اصول تھے۔ لیکن یہ باطل قائم نہیں رہے گا اور یہ ظلم غالب نہیں آئے گا۔ اور اس کے گھر والوں پر برا دن آئے گا اور حق اس کے گھر والوں کو لوٹ آئے گا۔
urdu column, the
Arab camel