“شیراز “شہرت سے خدمت تک ، سیدبشارت تھگسوی
ہر انسان فطری طور پر عزت، دولت اور شہرت کا خواہاں ہوتا ہےاور یہ کوئی غیر فطری کام بھی نہیں، تاہم شہرت ملنے کے بعد اس کے استعمال کا طریقہ اور روش اہم ہے۔ گزشتہ ایک دو سالوں میں ضلع گانچھے غورسے سے تعلق رکھنے والے ننھا بچہ شیراز کو جتنی شہرت ملی شاید ہمارے علاقے میں ایسی مثال اس سے پہلے موجود نہ ہو۔ قومی سطح پر نیشنل میڈیا پر کوریج، بڑی شخصیات سے ملاقات کے ساتھ انٹرنیشنل میڈیا پر بھی پذیرائی ملی جو یقیناً اس معصوم بچے پر خدا کا ایک خاص کرم تھا ۔ شیراز کے والد تقی بھائی جو شیراز کی شہرت سے پہلے ہی ایک مشہور وی لاگر تھے۔ انہوں نے بچے کی صلاحیت کو مزید نکھارنے میں یقیناً اہم کردار ادا کیا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں اس بچے کے علاوہ بھی کئی شخصیات نے شہرت کے عروج دیکھیں مگر آج اس کے بارے میں کچھ سطور لکھنے کی وجہ اس کی شہرت نہیں ہے ۔ ظاہری بات ہے جب کوئی مشہور ہوتا ہے تو کئی شخصیات اور اداروں سے اس کی وابستگی ہوجاتی ہے اور مختلف لوگ اس کے ذریعے اپنی پہچان بھی کرانے کی کوشش کرتے ہیں ، یقیناً ایسا شیراز کے ساتھ بھی ہوا اور مختلف اداروں ،فلاحی تنظیموں اور مخیر افراد کا ان سے رابطہ ہوا۔ ان باپ بیٹوں نے اس شہرت اور روابط کو صرف اپنے مالی فائدے کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اس سے علاقے کی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بنانے کی ٹھان لی ۔ جب انسان نیک نیتی سے کوئی بھی کام کرنے لگتا ہے تو خدا کی مدد مختلف طریقوں سے شامل ہوتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شیراز اور اس کے والد نے نیک کام کا ارادہ کیا تو مخیر افراد ان کے ساتھ دیتے گئے یوں “لوگ آتے ہی گئے اور کارواں بنتا گیا ” کے مصداق بہت سوں کے تعاون اور ان کی دلچسپی سے کافی حد تک لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میں کبھی ان سے ملا نہیں لیکن بذریعہ سوشل میڈیا معلوم ہوا کہ انہوں نے کئی بے گھر اور بے سہارا افراد کو رہائش کے لئے بہترین گھر بنا کر دیے ہیں ۔ غورسے جیسے دور افتادہ اور پسماندہ گاوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین اسکول قائم کیاہے ساتھ ہی غریب مریضوں کی سہولت کے لئے ایمبولنس کا بھی بندوبست کردیا ہے۔ یقیناً یہ سب صرف شہرت سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لِئے اخلاص اور درد دل ضروری ہے جو ان باپ بیٹوں کے پاس موجود تھے۔ جب سے ہمیں یاد ہے غورسے کا سب سے بڑا مسئلہ دریای کٹاو کا تھا حال ہی میں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان باپ بیٹوں کی وجہ سے اس خطرے کو کم کرنے کے لئے بھی کافی حد تک کام ہوا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی اور حیرت ہوئی کہ غورسے میں گزشتہ کئی عشروں میں نمائندوں اور حکومتی اداروں نے اتنا کام نہیں کیا ہے جتنا اس ننھے بچے کے ذریعے گزشتہ دو سالوں میں ہوا ہے۔ ان نیک کاموں سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر بندہ مخلص ہو تو “چھوٹا ” بھی بہت بڑا کام کرسکتا ہے جیسے کہ “شیراز” نے کیا۔ خدا ان کی شہرت کو خدمت میں بدلنے کا ان کو صلہ دے نیز یہ سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق بھی۔ آمین
سید بشارت تھگسوی
column in urdu, Shiraz Village Vlogger