ریاض نجفی (مرحوم) کے حالات زندگی بطور شاعر

ریاض نجفی (مرحوم) کے حالات زندگی بطور شاعر

تحریر : محمد جمیل شیخ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یوں تو ہر انسان اس ذات پرور دگار کے حکم کا تابع ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے عطاکردہ زندگی گزار کر ابدی آرام گاہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ بدن اور روح کے کا رشتہ ٹوٹنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں اور تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ بقول شیکسپئردنیا ایک ڈرامہ سٹیج ہے یہاں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرتا ہے اور چلاجاتا ہے۔ جب اللہ کسی انسان کو چاہتا ہے تو اسے اچھا اور نیک کردار تفویض کرتا ہے تاکہ لوگوں میں اسکی پہچان اس کا کردار ہو اور مرنے کے بعد بھی اس کا کردار زندہ رہے۔
خطہ بلتستان ایک ادبی خطہ ہے۔ یہاں تاریخ ادب کے بڑے بڑے نامور اور قدآور شخصیات پیدا ہوئے۔ جنہوں نے بلتی ادب کو فروغ دینے میں لازوال خدمات سر انجام دئے۔میرے محدود علم کے مطابق پورے بلتستان میں صرف دو شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے ملک الشعراء کا لقب پایااور ان دونوں شخصیات کا تعلق خطہ بلتستان کے مردم خیز سر زمین شگر سے ہے۔ایک حضرت بوا شاہ عباس علیہ الرحمہ اور دوسرا راجہ محمد علی شاہ صبا ؔ صاحب ہیں۔
حضرت بوا شاہ عباس نے شان آئمہ میں مدح سرائی کو جلا بخشی اور دور حاضر کے ملک الشعرء راجہ محمد علی شاہ صبا نے میدان تغزل میں عقل کا گھوڑا دوڑایا اور بلتی غزلیات کو ایک نئی جہت عطا کی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیات کی شاعری کو بلتستان کے ادبی حلقوں میں سند مانی جاتی ہے۔زیر نظر تحریر میں ملک شعراء راجہ محمد علی شاہ صبا نے ایک شعر کے ذریعے جس شاعر کو شاعری کی سند عطا کی، میں اسی شعر کا سہارا لیتے ہوئے اس شاعر کا مختصر تعارف اور اس گوہر نایاب کی شاعری کی حوالے سے چند جملے قارین تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔
برسوں پہلے ایک مشاعرے میں ملک الشعراء راجہ محمد علی شاہ صبا صدارت کی نشست پر جلوہ افروز تھے۔ غالبا ً علاقہ شگر کے تمام شعراء اس مشاعرے میں موجود تھے، جب نوجوان شاعر ریاض نجفی کو اپنا کلام سنانے کا موقع ملا تو مو صوف نے اپنے غزل کا مقطع ملک شعراء کی نذر کرتے ہوئے کہا ؎
صباکا ہے کرم پھر سے کھلا ہے
ریاض دھر مدت سے جزیں تھا
بعد ازاں جب میر محفل کی باری آئی تو ملک الشعراء نے ریاض نجفی کو شعر کی صورت میں بہت ہی نایاب اور حسین تحفہ عنایت کرتے ہوئے فرمایا ؎
محفل میں شور کرتے ہو تم کس لئے صبا
تم تو ریاض کی طرح رطب اللساں کہاں
یہ وہ سند تھی جس نے ریاض کو رطب اللسان شاعر ہونے کا شرف بخشا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ علمائے فن شاعر ی نے اپنے معتقد مین اور معاصرین کی شاعری کا اعتراف اسی انداز میں کیا ہے۔ غالب ؔ نے میر ؔ کو میدان غزل کا بے تاج بادشاہ قرار دیتے ہوئے فرمایاتھا ؎
ریختے کے تمھیں ا ستاد نہیں ہو غالب ؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر ؔبھی تھا
یوں ملک الشعراء نے ریاض کو صرف شاعری کی نہیں بلکہ رطب اللسانی کی بھی سند عطا کی۔شاید ریاض نجفی کووہ رطب اللسانی اس در سے ملی تھی جس در پہ دنیا کے سخی بھی مشکل کشائی کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور دنیا کے امراء بھی اس در کی فقیر ی کے لئے تر ستے ہیں۔ ریاض نجفی نجف الاشرف عراق میں پیدا ہوئے یہی وجہ تھی آپ اپنے نام کے ساتھ نجفی تخلص استعمال کیاکرتے تھے۔ یوں تو آپ نے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ لیکن قصیدہ اور غزل سے آپ کو خصوصی لگاؤ تھا۔ اس لئے ان کا ایک قصیدہ زیر نظر مضمون میں بطور تمثیل پیش کی گئی ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ریاض ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اصول شاعری اور الفاظ کے نشست و بر خاست سے بھی کما حقہ واقف تھے۔
تعریف کی رو سے قصیدہ اس نظم کو کہاجاتا ہے جو کسی بادشاہ، حاکم، بزرگ یا کسی عظیم ہستی کی تعریف و ستائش میں لکھی گئی ہو۔ اور ایک قصیدہ عموماً پانچ اجزا ء پر مشتمل ہوتا ہے۔
۱) تشبیب
۲)گریز
۳)مدح
۴)حسن طلب
۵)مقطع
۱) تشبیب:۔: قصیدہ کے وہ اشعار جو بطور تمہید لکھے جاتے ہیں۔ اس حصے میں شاعر اپنے کلام کو پرُ اثر بنانے کے لئے حسن و عشق یا مناظر قدرت کی مرصع نگاری کا سہارا لیتا ہے۔ یہ حصہ قصیدہ نگار کے کمال کی کسوٹی ہے۔ ریاض نجفی نے اس قصیدے میں تشبیب کا استعمال اس خوبصورت انداز سے کیا ہے ؎
پھر صحن گلستان میں چلی باد بہاری
پھر شاہد فطرت پہ ہوا کیف سا طاری
پھر باد صبا بن گئی خوشبو کی سواری
ساقی مجھے پیمانہ مودت کا عطا ہو
چھلکا کے پیوں ورد زباں صل علیٰ ہو
۲) گریز:۔ قصیدہ میں یہ حصہ تشبیب و مدح کو آپش میں ملاتی ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ اس حصے میں مختلف مضامین والی چیزوں کو ایسا مر بوط کرے کہ سامع تشبیب کے فوراً بعد مدحیہ اشعار سننے کا مشتاق ہو جائے جو قصیدے میں مشکل ترین کام ہے۔لیکن موصوف نے انتہائی اسلوب بیان، زور قلم اور جدت طبع سے سامعین کو یوں محسور کیا ہے ؎
خورشید امامت شۂ تسلیم و رضا ہے
ایمان کا میزان ہے معیار وفاہے
ان پر تو عبادت کو بھی خود ناز بڑا ہے
کیونکر نہ ہو آغوش امامت کا پلا ہے
یہ آدم سادات ہے کوثر کی ہے تفسیر
زینب کی یہ امید ہے یہ وارث شبیر
۳) مدح :۔ اس حصے میں شاعر ممدوح کے نام اور اوصاف کا ذکر کرتا ہے۔ ساتھ ہی ممدوح کی ذات میں موجود خوبیاں بیان کی جاتی ہے۔ صرف ایک بند بطور تمثیل پیش خدمت ہے ؎
اے وارث بطحا و عجم سید سجاد ؑ
اے بحر سخا ابر کرم سید سجادؑ
عابد ہے عبادت کا بھرم سید سجادؑ
سرنامہ تصویر الم سید سجادؑ
غم سہ کے بھی یوں ظلم کی بنیاد ہلا دی
اسلام کی بگڑی ہوئی تقدیر بنادی
۴) حسن طلب :۔ مدح کے بعد قصیدے میں حسن طلب کی باری آتی ہے۔ شاعر کو اس حصے میں اس قدر سحر بیانی سے کام لینا پڑتا ہے کہ ممدوح کریم بن جائے اور شاعر کا دامن گوہر مقصود سے بھر دے۔ اس حصے کو بھی شاعر نے پُر اثر انداز میں مکمل کیا ہے ؎
لخت دل زہرا ؑ شۂ مظلوم کا صدقہ
اکبرؑ کا علی اصغرؑ معصوم کا صدمہ
پابند رسن زینبؑ و کلثومؑ کا صدقہ
سجادؑ تیرے درد کے مفہوم کا صدقہ
سائل ہوں تیرے در کا کرم کیجئے مولا
اب دورد ہر اک رنج و الم کیجئے مولا
۵) مقطع :۔ باقی تمام اصناف سخن کی طرح قصیدے کی آخری منزل بھی مقطع ہے۔ جسے حسن الخاتمہ بھی کہتے ہیں۔ تمام شعراء اس حصے میں دعائیہ کلمات اور تخلص استعمال کر کے نظم یا غزل کو مکمل کرتے ہیں۔ ریاض نے قصیدے کی اس آخری منزل میں اپنا تخلص استعمال کر کے شاعری کو اس خوبصورتی اور مہارت سے مکمل کیا ہے کہ کوئی بھی اہل علم ان کی شاعری سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔
ریاض نجفی صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک جامع الصفات اور خداداد صلاحیتوں کے مالک انسان تھے۔ لیکن طالبعلمی گردش روزگار اور فکر معاش نے آپکو اپنی تمام تر توجہ شعر و ادب کی طرف مرکوز کرنے سے روکے رکھا، باوجود اس کے آپ کے ادبی فن پاروں کے چند ایک نایاب نسخے جن میں دو قلمی نسخے قابل ذکر ہیں۔ ایک راجہ محمد علی شاہ صبا کی کتاب ”نقیب آزادی“ کا حصہ دوم رشحات قلم اور دوسرا ارض بلتستان کے معروف شاعر و ادیب غلام حسن حسنی کی کتاب ”خسمبی میلونگ“ آپ نے اپنی ہاتھ سے لکھی اور یہ کتابیں آپکی فن خطاطی کے عظیم جوہر اور مقبول نمونے ہیں۔
آپ نے زندگی کی صرف 30بہاریں دیکھی اور اپنے چاہنے والوں کو ایسا داغ مفارقت دے گیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سانحہء ارتحال کا گھاؤ بڑھتا جاتا ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں