WhatsApp Image 2022 12 27 at 10.06.32 PM 716

زنجیروں سے باندھ کر پھر لفظوں سے مارا گیا ہمیں
تراش کر مجسمہ پھر خنجر کی نوک پہ اتارا گیا ہمیں
ہم عشق کے مارے، مہہ خانے کے سہارے تھے
ننگے پاؤں دہکتے انگاروں سے گزارا گیا ہمیں
توڑ مروڑ کر ہمارے اندر کے ستون سارے
ایک کھوکھلی امید سے سہارا گیا ہمیں
پہلے جامِ جبر دیا پھر جشن رکھا گیا
درد کی شدت پہ دہر بھی گوارہ گیا ہمیں
یہ آشوبِ ستم گری اس قدر گراں گزری ہمیں کہ
زندگی کے ٹھکرائے، موت سے پچھاڑا گیا ہمیں
ہماری قربانی بھی کسی کاملِ عشق کی سُنت ہے
سنگ ریزی سے پہلے خوب سجایا گیا ہمیں
اب تک نوک حلق سے نہیں اتری،خاک ہو گئے ہم
آئیندہ عشق والوں کو اندازِ وصیت بنایا گیا ہمیں
میزان میں ہمارے جہنم واجب کر دی گئی
اور زندگی میں حالِ اذیت جلایا گیا ہمیں
اب کہیں ملے تو مرحوم لکھنا زاویؔ کو
اک آخری احترامِ آگہی یہی تھمایا گیا ہمیں

زاویؔ

50% LikesVS
50% Dislikes

تراش کر مجسمہ پھر خنجر کی نوک پہ اتارا گیا ہمیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں