تراش کر مجسمہ پھر خنجر کی نوک پہ اتارا گیا ہمیں

زنجیروں سے باندھ کر پھر لفظوں سے مارا گیا ہمیں
تراش کر مجسمہ پھر خنجر کی نوک پہ اتارا گیا ہمیں
ہم عشق کے مارے، مہہ خانے کے سہارے تھے
ننگے پاؤں دہکتے انگاروں سے گزارا گیا ہمیں
توڑ مروڑ کر ہمارے اندر کے ستون سارے
ایک کھوکھلی امید سے سہارا گیا ہمیں
پہلے جامِ جبر دیا پھر جشن رکھا گیا
درد کی شدت پہ دہر بھی گوارہ گیا ہمیں
یہ آشوبِ ستم گری اس قدر گراں گزری ہمیں کہ
زندگی کے ٹھکرائے، موت سے پچھاڑا گیا ہمیں
ہماری قربانی بھی کسی کاملِ عشق کی سُنت ہے
سنگ ریزی سے پہلے خوب سجایا گیا ہمیں
اب تک نوک حلق سے نہیں اتری،خاک ہو گئے ہم
آئیندہ عشق والوں کو اندازِ وصیت بنایا گیا ہمیں
میزان میں ہمارے جہنم واجب کر دی گئی
اور زندگی میں حالِ اذیت جلایا گیا ہمیں
اب کہیں ملے تو مرحوم لکھنا زاویؔ کو
اک آخری احترامِ آگہی یہی تھمایا گیا ہمیں

زاویؔ

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں