باری کا انتظار! تحریر پروفیسر قیصر عباس
باری کا انتظار! تحریر پروفیسر قیصر عباس
اردو زبان میں اسٹیبلشمنٹ کا مطلب استحکام اور انتظام وانصرام ہے۔پاکستان کی سیاست میں یہ نام زبان زد عام ہے۔عموما اسٹیبلشمنٹ، مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ میں بیٹھے ہوئے ان طاقتور افراد کو کہا جاتا ہے جن کے ہاتھوں میں ریاست کی باگ ڈور ہوتی ہے ۔اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر بات کی جائے تو ہمارے ہاں یہ اصطلاح صرف ملٹری و سول بیوروکریسی کے لئے استعمال کی جاتی ہے بلکہ دور حاضر میں اب اس لفظ کا استعمال صرف ملٹری بیوروکریسی کے لئے کیا جاتا ہے۔پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ آج مضبوط نہیں ہوئی بلکہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی اس کی جڑیں مضبوط ہوگئی تھیں اور اب تو یہ ایسا تنا آور بوہڑ بن چکا ہے جو اپنے نیچے کسی درخت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیتا۔پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کا تعلق سول بیوروکریسی سے تھا گورنرجنرل نے انتظامیہ پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد مقننہ کو کمزور کیا ۔آئین ساز ادارے کو تحلیل کیا حالانکہ گورنر ایسا کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی آئین ساز اسمبلی کو توڑا جاسکتا تھا جب تک یہ ادارہ ملک کے لئے آئین نہ بنا لیتا مگر گورنر جنرل نے یہ غیر آئینی قدم اٹھایا ۔اسمبلی کے سپیکر اس غیر آئینی اقدام کے خلاف سندھ کورٹ چلے گئے سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ مولوی تمیز الدین کے حق میں دے دیا۔وفاقی حکومت اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی ۔فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس ملک محمد منیر نے اپنے ہم قبیلہ اور دوست غلام محمد کے حق میں” نظریہ ضرورت” کا استعال کرتے ہوئے فیصلہ دے دیا۔یوں گورنر جنرل کے غیر آئینی اقدام کو جائز قرار دے دیا گیا۔اس کے بعد فوجی پس منظر رکھنے والے اور سابق ملٹری سکریٹری سکندر مرزا نے بطور گورنر جنرل جو سیاست میں مداخلت کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایوان گورنر جنرل میں بیٹھ کر راتوں رات سیاسی پارٹیاں تشکیل دینا اور وزرائے اعظم کو گھر کا راستہ دیکھانا معمول بن چکا تھا۔ان سارے معاملات میں جہاں سکندر مرزا اور ایوب خان نے کوئی کسر نہ چھوڑی وہی حالات کے مطابق قبلہ تبدیل کرنے والے سیاستدان بھی پیچھے نہ رہے۔جب 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگایا تب ملٹری بیوروکریسی نے سیاست میں براہ راست قدم رکھ دیا اور پھر اگلے گیارہ سال تک ایوب خان نے اس ملک پر حکومت کی۔عوامی غیض وغضب اور جنرل یحییٰ خان کے دباوٴ کے بعد ایوب خان مسند اقدار سے علیحدہ ہوئے تو ایک بار پھر سے جنرل یحیٰی خان نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔1970ء کے انتخابات ہوئے اقتدار کے لئے تین لوگوں ،یحیی خان ،شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان رسہ کشی شروع ہوگئی ان تینوں کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا ۔ذوالفقار علی بھٹو باقی بچے ہوئے ملک کے وزیر اعظم بنے۔یکے باد دیگرے جرنیلوں کو نوکری سے نکالا سول بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کےلئے اقدامات اٹھائے مگر آخر کار دونوں طبقات کو اپنا دشمن بنا بیٹھے اور بھٹو صاحب کا انجام سامنے ہے۔جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بھٹو مخالف سیاست دانوں اور ان لوگوں کو اکھٹا کیا جن کو بھٹو دور میں ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔سیاسی جماعتوں پر پر پابندی عائد کر دی گئی اور پھر کم وبیش اگلے گیارہ سالوں تک “راوی نے چین ہی چین لکھا”۔جنرل صاحب اگست 1988ء کو طیارہ حادثے میں خالق حقیقی سے جاملے ۔1988ء میں انتخابات ہوئے اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو سے یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد اقتدار محترمہ کو سونپا۔اس کے بعد نواز شریف پر دست شفقت رکھا گیا ۔میاں نواز شریف اور بے نظیر کی باہمی چپقلش سے بھر پور فائدہ اٹھایا گیا ۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے کچھ ہوش کے ناخن لئے اور مشہور زمانہ معاہدہ کیا جسے “میثاق جمہوریت ” کا نام دیاگیا۔لیکن ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ “اندر کھاتے” جنرل مشرف اور محترمہ کی ڈیل کی خبریں آنا شروع ہوئی جس کی تصدیق NRO نامی آرڈیننس نے کر دی یہ علیحدہ بات ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا۔بدقسمتی سے محترمہ شہید ہوگئی اور زرداری صاحب پارٹی کے “کو چیرمین “جبکہ بلاول بھٹو زرادی “بھٹو کا لاحقہ “لگا کر چیرمین بنادئیے گئے۔رزداری صاحب چونکہ “ہم آہنگی “اور “مفاہمت “پر یقین رکھتے ہیں اس لئے پانچ سال تک صدر بھی رہے اور اپنا وزیراعظم بھی برقرار رکھا مگر اچانک ان کے ذہن میں “اینٹ سے اینٹ بجانے”کا خیال آگیا جس کی وجہ سے انہیں اپنا زیادہ وقت دبئی ،لندن اور امریکہ گزارنا پڑا۔اس کے بعد زرداری صاحب “اچھے بچے “بن کر وقت گزار رہے ہیں اور کبھی” اینٹ سے اینٹ بجانے ” جیسا دلفریب بیان نہیں دیا ۔کیونکہ انہیں سمجھ آگئی ہے کی طاقت کے “اصل مراکز”کہاں ہیں۔نواز شریف چوتھی دفعہ وزیر اعظم تو بن گئے مگر اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہوکر “سینگ اڑانے “سے باز نہیں آئے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے طارق فاطمی اور پرویز رشید کی چھٹی ہوئی بعد میں خود بھی نااہل ہوئے ،جیل کی ہوا بھی کھائی اور اب لندن کے صحت افزا ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔اب تک کی صورتحال کو دیکھیں تو سب سے زیادہ نقصان عمران خان صاحب کا ہوا ہے کیونکہ موصوف کو یہ زعم تھا کہ میں بہت مقبول لیڈر ہوں یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے مگر اپنی فاش غلطیوں کی وجہ سے آج مقبولیت تو ہے لیکن پارٹی نہیں ہے۔اپنی حکومت کے وقت اک پیج کا راگ الاپتے رہے لیکن بہت جلد یہ ون پیج پھٹ گیا۔ہمارے سیاست دانوں کا صرف ایک مسئلہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے تو اسٹیبلشمنٹ بہت اچھی ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ آئین و قانون کے دائرے میں رہتی ہے اور ناجائز خواہشات کی تکمیل میں ساتھ نہیں دے رہی تو اسٹیبلشمنٹ بہت بری ہے۔خان صاحب کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا جب تک اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کے ساتھ تھی تب تک اسٹیبلشمنٹ کا ہر رکن محب وطن تھا لیکن جونہی اسٹیبلشمنٙٹ نے آئین اور قانون پر چلنے کا فیصلہ کیا یہی لوگ “میر جعفر “اور” میر صادق”کہلانے لگے۔اصل میں ہمارے ہاں ہر سیاسی پارٹی لائن میں لگی ہوئی ہے اور اپنی باری کے انتظار میں ہے اگر باری میں تاخیر ہوجائے تو اسٹیبلشمنٹ بری ہے اور اگر باری جلدی مل جائے تو اسٹیبلشمنٹ اچھی ہے۔
پروفیسر قیصر عباس!