افراد باہم معذوری گلگت بلتستان کے مسائل ولدین کی ذمہ داری ۔ شبیر حیدر شہباز ایڈووکیٹ

فراد باہم معذوری گلگت بلتستان کے مسائل ولدین کی ذمہ داری ۔۔
گلگت بلتستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق افراد باہم معذوری کی تعداد سترہ سے اٹھارہ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جنہوں نے اپنا اندراج کروادیا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی علاقے میں افراد باہم معذوری کی تعداد کل آبادی کا پندرہ فیصدی حصہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح اگر غور کیا جاۓ تو گلگت بلتستان میں افراد باہم معذوری کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار نفوس سے تجاوز کر چکی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ والدین بھی ایسے بچوں کو چھپا کر رکھتے ہیں یا چند ایک کے علاوہ یہ کہہ کر تعلیم نہیں دلواتے کہ یہ تو معذور ہے یہ پڑھ کے کیا کرے گا۔والدین کی ایک تعداد ایسی ہے جو انہیں اپنے گناہوں کی سزا یا اللہ کی طرف سے امتحان سمجھتی ہے
Sustained Development یعنی پائیدار ترقی سے مراد ایسی ترقی ہے جس میں زمین پر بسنے والے تمام افراد میں ایک ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ، فکر میں بہتری اور ماحول کو صحت مند رکھنے کی صلاحیت ہو۔ یعنی آج ہمیں جو وسائل میسر ہیں چاہے وہ قدرتی، انسانی یا غیر انسانی ہوں، انہیں سے قابلِ استفادہ بنایا جائے اور آئندہ نسلوں کے لیے بہتری لانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ایسی ترقی کبھی بھی پائیدار نہیں ہوسکتی جس میں تمام اہم وسائل آج ہی استعمال کرلیے جائیں اور کل یعنی آئندہ نسلوں کے لیے کچھ بھی نہ بچے۔

سال 2012ء میں اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے پائیدار ترقی میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 2015ء میں اختتام پذیر ہونے والے ’نئے ہزاریے کے ترقیاتی مقاصد‘ ( Millennium Development Goals )کو آگے بڑھانے کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف (Sustained Development Goals) پر کام ہونا چاہیے۔ چنانچہ 2015ء میں انجمن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پائیدار ترقی کے اہداف کا مسودہ پیش کیا، جس کا دورانیہ 2015ء سے 2030ء تک ہوگا۔

پائیدار ترقی کے 17 اہداف ہیں جن میں غربت اور بھوک کا خاتمہ، اچھی صحت، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی اور نکاسی آب، پائیدار توانائی، اچھا روزگار اور معاشی ترقی، جِدت اور بنیادی انفراسٹرکچر، ذمہ داری کھپت اور پیداوار، تحفظِ ارض، عالمی خوشحالی، پائیدار شہر اور کمیونٹی، زیرِ آب حیات، زمین پر زندگی، امن و انصاف اور مستقبل کے لیے شراکت شامل ہیں۔
پائیدار ترقی کے اہداف (SDG’s) عالمی برادری کی طرف سے کرۂ ارض پر بسنے والے آٹھ ارب سے زائد انسانوں کی ترقی و نمو کا اظہاریہ ہے۔ ستمبر 2015ء میں حکومتِ پاکستان نے بھی پائیدار ترقی کے اہداف پر دستخط کرکے عالمی برادری کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کیا۔ پائیدار ترقی کے اہداف پاکستان کی ترقی کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ اہداف ہمیں 2030ء تک کے لیے ایک لائحہ عمل مہیا کرتے ہیں اور حکومتِ وقت کو یہ عندیہ دیتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کے لیے پاکستان میں صنفی مساوات کے تحت صحت و تعلیم کی سہولیات تک تمام پاکستانیوں کی رسائی ممکن بنائی جائے۔
پائیدار ترقی کے اکثر اہداف میں افراد باہم معذوری کا ذکر ہے۔ لیکن اہداف نمبرز 4، 8، 10، 11 اور 17 میں خصوصی طور پر معذوری کے متعلق ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
ہدف نمبر 4.5 کے مطابق 2030ء تک شعبہءِ تعلیم میں صنفی عدم برابری کا خاتمہ کرنا اور مسائل کے شکار افراد بشمول افراد باہم معذوری، قدیم باشندوں اور مسائل زدہ حالات میں رہنے والے بچوں کو ہر سطح کی تعلیم اور فنی تربیت تک مساوی رسائی فراہم کرنا۔
ہدف نمبر 4.A کے مطابق ایسے تعلیمی اداروں کی تعمیرات یا ان میں مزید بہتری لانی ہوگی جن میں بچوں، افرادِ باہم معذوری اور صنفی اعتبار سے بھی تمام افراد کا خاص خیال رکھا جاتا ہو، ساتھ ہی انہیں محفوظ، غیر متشدد، تمام اسکولوں میں ان کی ضرورت کی ہر سہولت اور سیکھنے سمجھنے کا مؤثر ماحول فراہم کرنا ہوگا۔
پاکستان بھر میں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔لیکن گلگت بلتستان میں تعلیمی سہولیات افراد باہم معذوری کے لیے نہ ہونے کے برابر ہیں یہاں کوئی ایک تعلیمی ادارہ میٹرک یا انٹر لیول تک نہیں ہے جو سماعت و بصارت سے محروم طلباء، ذہنی پسماندگی اور جسمانی معذوری کے شکار طلباء کو تعلیم اور پیشہ وار تربیت سے آراستہ کر سکے۔ ایک پرائمری سکول گلگت میں جبکہ ایک پرائمری سکول سکرو بلتستان اور حال ہی میں ایک پرائمری سکول دیامر میں حکومتی سطح پر کام کررہے ہیں۔ نیز پرائمی تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد زیادہ اکثریتی طلبہ و طالبات ان رکاوٹوں کی نظر ہوکر ناکارہ اور حقیقی معنوں میں معذوری کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔
جب تک اُن تمام تعلیمی، ماحولیاتی اور معاشرتی رکاوٹوں کی نشاندہی نہیں کی جائے اور انہیں بتدریج ختم نہیں کیا تو منفرد صلاحیتوں کے حامل طلباء معذور بنتے جائئں گے اور آگے چل کر معاشرے پر بوجھ محسوس ہوں گے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں خصوصی بچوں کے لیے Inclusive Education System رائج ہوچکا ہے، جہاں پر عام طلباء اور خصوصی طلباء اکھٹے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں خصوصی طلباء کو Inclusive Education System اور Mainstream Education System میں لانے کے لیے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کرنے اور عمارتوں کو قابلِ رسائی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اساتذہ کرام کو معذوری سے متعلق آگاہی دینے، خصوصی طلباء کے لیے مددگار آلات کی اہمیت اور IEP) Individual Educational Program) سے متعلق آگاہی دینے کے لیے ٹیچرز ٹریننگ پروگرامز مرتب کرنے ہوں گے جبکہ معاشرے میں معذوری سے متعلق آگاہی کے لیے عام تعلیمی نصاب میں مضامین اور کہانیاں شامل ہونی چاہئیں۔اور حکومتی سطح پر اگاہی پروگرامز منعقد ہوتے رہنا ضروری ہے
خصوصی تعلیمی اداروں میں معذور طلباء کی پیشہ ورانہ تربیت ہونی چاہیے۔مثلا معذور طالبات کو آرٹ اینڈ کرافٹ، کھانا پکانے، ڈریس ڈیزائیننگ اور بیوٹیشن کی پیشہ ورانہ تربیت بہت مفید ہوسکتی ہے، جبکہ معذور طالب علموں کو کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی، موبائل ریپئرنگ اور آن لائن بزنس کی پیشہ ورانہ تربیت فائدہ مند ہو سکتی ہے۔
پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 8.5 کے مطابق 2030ء تک نوجوانوں اور افراد باہم معذوری سمیت تمام خواتین اور مردوں کے لیے مکمل اور مفید روزگار اور مناسب کام نیز یکساں اہمیت کے کام کے لیے یکساں تنخواہ کے حصول کو ممکن بنانا ہوگا۔
پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں افرادِ باہم معذوری کو شامل کرنے کے لیے جامع اور مربوط حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ گلگت بلتستان قانون افراد باہم معذوری ایکٹ 2019 کے مطابق تمام نجی و سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا 3 فیصد کوٹہ معذور افراد کے لیے مختص ہے لیکن صرف ملازمت کا حصول افرادِ باہم معذوری کو اُس وقت تک کار آمد نہیں بنایا جاسکتا ہے جب تک دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں کی تعمیرات میں تبدیلی کرکے انہیں معذور افراد کے لیے قابلِ رسائی نہیں بنایا جائے گا۔گلگت بلتستان میں نہ تو تعلیمی ادارے قابل رسائی ہیں نہ سرکاری عمارتیں بشمول عدالتیں بلکہ مذہبی عبادت خانے بھی ناقابل رسائی ہیں۔ معذوری سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب اداروں کی انتظامیہ اور کارکنان خصوصی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کرپاتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم اور مہارتوں کی بجائے صرف جسمانی معذوری کی بناء پر ملازمت کے لیے رد کردیا جاتا ہے یا اُن کی قابلیت کے لحاظ سے بہت کم تنخواہ کی پیش کش کی جاتی ہے۔جبکہ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں افراد باہم معذوری کے لیے قابلِ رسائی ٹیکنالوجی اور مددگار آلات کی بدولت سماعت اور بصارت سے محروم افراد بھی آفس ورک باآسانی کرلیتے ہیں۔
پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 10.2 کے مطابق 2030ء تک عمر، جنس، معذوری، نسل، قومیت، مذہب یا اقتصادی یا دوسرے درجے کا لحاظ رکھے بغیر تمام لوگوں کو بااختیار بنانا اور سب لوگوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔
وطنِ عزیز میں معذور افراد کی معاشی و معاشرتی بحالی کے لیے ہر سطح پر سیاسی امور میں ان کی شمولیت لازم و ملزوم ہے۔گزشتہ الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان جناب راجہ شہباز خان نے پوسٹل بلٹ کا اجراء صوبائی رہنما امجد ندیم اور اسکی ٹیم کی استدعا پر کیا تھا جس ٹیم کا حقیر بھی ممبر تھا۔ اس اقدام سے کئی افراد باہم معذوری نے استفادہ کیا اور حق راۓ دہی میں شامل ہوے اگلے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے اہل معذور ووٹرز کی شمولیت کو مکمل بنانے کے لیے مزید بہتر جامع پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن، نادرا اور افرادِ باہم معذوری کو متحرک ہونا پڑے گا۔
ہمارے ملک میں مقامی حکومت، صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی طرح معذور افراد کے لیے بھی نشستیں مختص ہونی چاہئیں تاکہ افرادِ باہم معذوری سے متعلق بننے والی تعمیر و ترقی کی تمام پالیسیوں کے بارے میں اُن کی رائے شاملِ حال رہے، کیونکہ وہ اپنے مسائل اور اُن کے حل کی بہتر طور پر نشاندہی کرسکتے ہیں۔
پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 11.2 کے مطابق 2030ء تک سب کے لیے محفوظ، سستی، قابلِ رسائی اور پائیدار نقل و حمل کے نظام فراہم کرنا ہوگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے کے ساتھ روڈ سیفٹی کو بہتر کرنا ہوگا اور خاص طور پر غیر محفوظ حالات میں رہنے والے افراد، عورتوں، بچوں، افراد باہم معذوری اور بزرگ افراد کی ضروریات پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔۔
تعلیم و تربیت کے حصول، ملازمت و کاروبار، سیر و تفریح اور شاپنگ وغیرہ کے لیے عام شخص کی طرح معذور شخص کو بھی گھر سے باہر لازماً نکلنا ہوتا ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ اُن کے لیے قابِل رسائی نہیں ہوگی تو یوں وہ گھروں تک ہی محصور ہوجائیں گے۔
ترقی یافتہ ممالک خصوصاً جاپان، امریکا، کینڈا وغیرہ میں شدید ترین معذور افراد کی ذہنی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانے اور معاشرے کا فعال شہری بنانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کو 100 فیصد قابِل رسائی بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں میڑو بس اور لاہور اور ملتان میں اسپیڈو بس سروس کا آغاز ہوچکا ہے جو کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے قابِل رسائی ٹرانسپورٹ ہے۔لیکن گلگت بلتستان سے راولپنڈی اسلام اباد کے لیے موجود ٹرانسپورٹ بشمول حکومتی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (NATCO) کوئی کمپنی ایسی نہیں جس کے پاس قابل رسائی بسیں ہوں۔ 2030ء تک اُمید کی جاسکتی ہے کہ عورتوں، بچوں، بزرگوں اور افرادِ باہم معذورای کے لیے گلگت بلتستان کی تمام پبلک ٹرانسپورٹ قابلِ رسائی بن جائے گی۔
پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 11.7 کے مطابق 2030ء تک خواتین اور بچوں خاص طور پر بڑی عمر کے افراد اور افرادِ باہم معذوری کے لیے محفوظ، جامع اور قابلِ رسائی سرسبز اور عوامی مقامات تک عالمگیر رسائی فراہم کرنی ہوگی۔
عبادت گاہیں حضرتِ انسان کا اپنے رب سے تعلق مضبوط بناتی ہیں، جبکہ تفریح گاہیں مثلاً پہاڑی علاقے، ساحلِ سمندر، جھیلیں اور پارک وغیرہ نہ صرف انسان کو قدرتی نظاروں کے قریب کرتے ہیں بلکہ اُن کو ذہنی سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بھی افرادِ باہم معذوری کے لیے عبادت گاہوں اور تفریح گاہوں کو قابلِ رسائی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اِن مقامات پر سماعت سے محروم افراد کے لیے signs یعنی اشارے نصب ہونے چاہئیں۔ بصارت سے محروم افراد کے لیے Tacit Tiles اور ابھرے ہوئے نشان نصب ہونے چاہئیں۔ جسمانی معذور افراد کی وہیل چیئر کے لیے قابلِ رسائی راستے بنانے چاہئیں۔
پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 17.18 کے مطابق 2030ء تک ترقی پذیر ممالک، بالخصوص کم ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر جزائر کی ریاستوں کی صلاحیت سازی کے لیے دی جانے والی امداد میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ وہ میعاری، قابلِ بھروسہ اور بروقت اعداد و شمار فراہم کرنے کے اہل ہوسکیں، جس میں آبادی کے حوالے سے آمدن، صنف، عمر، قوم، نسل اور تارکینِ وطن کی حالت، معذوری، جغرافیائی محلِ وقوع اور اُس ملک کے حوالے سے دیگر اہم کیفیات درج ہوں۔
ملک کی آبادی کا تخمینہ لگانے اور کُل آبادی کے مطابق معاشی پالیسیاں ترتیب دینے کے لیے ۔ بدقسمتی سے ہمارے گلگت بلتستان میں جس طرح معذور افراد کا ہر سطح پر معاشی اور معاشرتی استحصال جاری ہے، مردم شماری میں بھی انہیں بُری طرح نظر انداز کردیا گیا۔ محض ان افراد کا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے جنہوں نے خود جاکر رجسٹریشن کروائی ہے۔ چیئرمین قومی ادارہ برائے شماریات سے استدعا ہے کہ عالمی پائیدار ترقی کے ہدف نمبر 17.18 کو حاصل کرنے کے لیے ہنگامی پلان کا اعلان کریں۔
اس کے علاوہ سب سے اہم امریہ ہے کہ والدین افرادباہم معذوری کے بابت قوانین۔پالیسسز اور حکومتی و عالمی اداروں کے اہداف مذکورہ بالا سے باخبر رہیں۔اپنی اولا کو خدا کی جانب سے ایک خصوصی ٹاسک گردانیں تبہی افراد باہم معذوری کے مسائل کو کم کیا جا سکتاہے۔
شبیر حیدر شہباز ایڈووکیٹ مشیر قانونی و نمائندہ والدین افراد باہم معذوری گلگت بلتستان۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں