تیراہ میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ’رات کے اُس پہر معلوم نہیں ہو سکا، دھماکے کہاں اور کیسے ہوئے‘ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کا شدید مذمت
رپورٹ، 5 سی این نیوز
تیراہ میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ’رات کے اُس پہر معلوم نہیں ہو سکا، دھماکے کہاں اور کیسے ہوئے‘ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ کا شدید مذمت، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں اتوار کی شب عام شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات ’ناقابلِ قبول اور افسوسناک‘ ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے ایک سینیئر پولیس افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ وادی تیراہ میں اتوار کی شب پیش آنے والے واقعے میں مجموعی طور پر 23 افراد ہلاک ہوئے جن میں سات خواتین اور چار بچے بھی شامل ہیں تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے تاحال تیراہ میں کسی کارروائی کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
میڈیا نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ، ڈپٹی کمشنر ضلع خیبر، ڈی پی او خیبر اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے رابطے کی کوشش کی اور انھیں اس واقعے کے تناظر اور نوعیت کے بارے میں سوالات بھیجے تاہم تمام متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے ہلاک ہونے والے شہریوں کے لواحقین کے لیے ایک، ایک کروڑ روپے زرِ تلافی کا بھی اعلان کیا ہے۔
ادھر پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اتوار کی شب تیراہ میں مبینہ ’فضائی بمباری‘ کے نتیجے میں بچوں سمیت متعدد شہریوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پیر کو تیراہ سے تعلق رکھنے والے ایک وفد نے اس واقعے کے تناظر میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ملاقات کی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ملاقات میں تیراہ میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کے تناظر میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔‘ وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’واقعے میں عام شہریوں کی ہلاکت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔‘ انھوں نے آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے علاقے کے منتخب عوامی نمائندوں، تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور علاقہ مشران پر مشتمل جرگے کی اعلیٰ عسکری حکام کے ساتھ ملاقات کرانے کا فیصلہ کیا۔
ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ عسکری حکام کے ساتھ جرگے کی ملاقات میں علاقے میں امن و امان کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ باجوڑ کے طرز پر تیراہ میں بھی امن و امان کے قیام کے لیے حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں بشمول ٹانک، وادی تیراہ اور باجوڑ میں حالیہ کچھ عرصے میں جہاں بدامنی کے واقعات بڑھے ہیں، وہیں سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کارروائیوں کے دوران شہریوں کی مبینہ ہلاکتوں پر مقامی افراد نے احتجاج بھی کیے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں شہری ہلاکتوں کے ایسے دو واقعات پیش آ چکے ہیں۔ جولائی میں تیراہ میں ہی ایک مکان پر مارٹر گولہ گرنے سے ایک بچی کی ہلاکت ہوئی تھی جس کے بعد ہونے والے احتجاج پر فائرنگ سے پانچ افراد مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جولائی میں ہی باجوڑ میں بھی عسکری کارروائیوں کے دوران تین شہریوں کی ہلاکت کے واقعات پیش آئے تھے۔
اس موقع پر بھی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ ’دہشتگردی کے خلاف آپریشنز میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور فوج اور عوام کے درمیان اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔‘ انسانی حقوق کمیشن اور مقامی افراد کا کیا کہنا ہے؟ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ’وادی تیراہ میں پیش آنے والے اس واقعے میں مبینہ طور پر دو گھروں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ‘ اپنے بیان میں انسانی حقوق کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ ’ریاست آئینی طور پر شہریوں کے زندگی کے تمام حقوق کا تحفظ کرنے کی پابند ہے، جسے وہ نبھانے میں وہ بار بار ناکام رہی ہے۔‘
بی بی سی نے کچھ مقامی افراد اور سیاسی رہنماؤں سے بات کی جس میں حملے کی نوعیت کے حوالے سے متضاد باتیں سامنے آئی ہیں۔
محمد اسحاق کا تعلق وادی تیراہ سے ہے اور وہ سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ اسحاق کا دعویٰ ہے کہ جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا، اُن کی رہائش گاہ اس جگہ سے تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’رات کے تین، ساڑھے تین بجے ہم نے اور دیگر علاقہ مکینوں نے طیاروں کی تیز آوازیں سُنیں جس کے بعد تین دھماکے ہوئے۔‘
انھوں نے کہا کہ چونکہ اُن کے علاقے میں موبائل سگنلز نہیں ہوتے اور بروقت رابطہ نہیں ہو پاتا اس لیے ’رات کے اُس پہر معلوم نہیں ہو سکا کہ دھماکے کہاں اور کس نوعیت کے ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’صبح کی اذان اور نماز کے بعد مقامی مساجد سے اعلانات ہونا شروع ہوئے اور بتایا گیا کہ بہت سے بچے اور خواتین ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جنھیں نکالنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ یہی اعلان سُن کر میں جائے وقوعہ پر پہنچا، جہاں پہلے ہی کافی لوگ موجود تھے۔‘
اسحاق نے کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ ’رضا کار دبے ہوئے افراد کو نکال رہے تھے۔ مقامی رضا کاروں نے ایک گھر سے 19 لاشیں نکالیں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھے جبکہ ساتھ واقع ایک دوسرے گھر کے ملبے سے دو لاشیں نکالی گئیں۔‘
ملک عطا اللہ خان عوامی انقلابی لیگ کے سربراہ ہیں اور ان کا تعلق تحصیل باڑہ سے ہے۔ وادی تیراہ تحصیل باڑہ کا ہی حصہ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اس واقعے کے تناظر میں پیر کی صبح باڑہ میں احتجاج شروع کیا اور جب جنازوں کا اعلان ہوا تو وادی تیراہ چلے گئے۔ وہاں چند مقامی رہنماؤں نے رائے پیش کی کہ لاشوں کو لے کر پشاور جایا جائے مگر لواحقین کا فیصلہ تھا کہ وہ لاشوں کی بے حرمتی نہیں چاہتے ہیں۔‘
تحصیل چیئرمین باڑہ مفتی کفیل نے بتایا کہ انھوں نے دیگر قبائلی رہنماؤں اور نمائندوں کے ساتھ علاقے کا دورہ کیا ہے اور ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ میں شرکت کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے خود اس جگہ کا دورہ کیا ہے جہاں مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔
سیاسی رہنماؤں کا ردعمل اور تحقیقات کا مطالبہ
سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی شفاف اور فوری تحقیقات کرائی جائیں، ذمہ داران کا تعیّن کیا جائے اور متاثرہ خاندانوں کو نہ صرف فوری ریلیف اور معاوضہ دیا جائے بلکہ ان کی بحالی کے لیے بھی جامع اقدامات کیے جائیں۔
ایکس پر اپنے پیغام میں اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ المیہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں اور اس سب کے نتائج مستقبل میں کیا ہوں گے۔‘
اسی معاملے پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی سہیل آفریدی نے پشتو زبان میں آفریدی قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ ’آفریدی قوم اپنے حقوق کے لیے متحد ہو جائے اور جمعے کے روز عوامی پاسون ہو گا اور اس میں تمام قبائل اور عمائدین شریک ہوں گے۔‘
اس بارے میں سپیکر صوبائی اسمبلی نے کہا کہ اس معاملے پر خصوصی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے اور اس کے ٹی او آرز جلد ہی جاری کیے جائیں گے۔
urdu news, wadi tera drone attack
