مشکلات زندگی اور ہم ، یاسر دانیال صابری

Urdu news, urdu column, Difficulties in life and us

مشکلات زندگی اور ہم ، یاسر دانیال صابری
موجودہ حکومت کی پالسیاں ،عوام کے مسائل کے انبار، کمر توڈ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ سے تجارتی حضرات سمیت سفید پوش طبقہ بہت پریشان حال ہے ۔ستم ظرفی کی عالم یہ ہے کہ جہاں عوام کو فوڈ محکمہ وافر مقدار میں گندم کوٹہ مہیا نہ کر سکا۔تو کئی تعلیمی اداروں کے ٹیچر ڈپٹیاں سر انجام نہیں دے رہے ہیں تو کئی عوام مفلوج نیٹ ورک ایس سی او سے تنگ و بیزار ہے۔ہر بندہ اپنے روزمعاش کے پچھے دنیا سے گھوم سوم ہو کر اپنا پیٹ نفس کے تک و دو میں لگا ہوا ہے تو کئی بندے جینے سے بیزار ہے۔کئی رشتے اپنے وقار کھو دئیں ہوئے ہے تو کئی لوٹ ڈاکتی کی بازار گرم ہے کئی اسلامک قوانین پامال ہو رہے ہے تو کئی بندے دوسروں کے ارضی پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں کئی روڈوں کی حالت خاستہ حال ہے تو کئی ٹھیکدار روپے کھا کر حلقہ احباب سے غائب ہے ۔بے بسی کی عالم میں کوئی سوشل مسائل دیکھنے اور سننے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ان سب مسائل کا حل مکمن تب ہو گا جب سارے اپنے اپنے حصہ کا کام ایمانداری سے کرتے ہوئے قول و فعل میں تضاد نہیں رکھتے ۔جس معاشرے میں جھوٹ سچ سے آگے نکل جائے تو وہاں ایمانداری کا سرٹفیکٹ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔کسی بھی ادارے میں ایمانداری بڑی نعمت ہے.گلگت بلتستان سمیت ملک پاکستان کا انفرسٹریکچر کا برا حالت ہے ۔لوگ گھریلوں مسلہ مسائل کو لے کر اپسیٹ ہے۔گھر میں ایک چیز پوری ہوتی ہے تو دوسری چیز کم پڑھ جاتی ہے ۔متوسط اور مڈل کلاس لوگ ضروریات زندگی بہت مشکلات سے چلا رہے ہیں ۔عورتیں ڈپریشن کی مریض بن چکی ہے ۔ہمارے معاشرے میں بہت سے بندے ڈپریشن کے مریض بن چکے ہیں ۔ایسے مریضوں کو حوصلہ دینا چاہئے کہ وہ حوصلہ مضبوط کریں۔ہمارے معاشرے میں ڈپریشن بڑی بیماری ہے گلگت بلتستان میں ڈپریشن کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔کچھ لوگ زندگی کے بازی ہار جاتے ہیں . پریڈ آف لائف میں سب نے مرنا ہے کہہ کر خودکشیاں کرتے ہیں ۔
اب سب سے اہم کہ ڈپریشن کیسے بچا جا سکتا ہے ہمیشہ کی طرح یہ سوال ہم کائنات کے سب سے عظیم شخص میرے اور آپ کے پیر و مرشد جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں آپ کے اسوہ حسنہ اور آپ کے اصحاب کے طریقے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈپریشن اور جیسے تمام ذہنی امراض کا حل ہے یہ ہر وہ چیز جو ہمارے اختیار میں نہیں اس پر سوچنے سے ڈپریشن پیدا ہوتا ہے،
اللہ پر توکل کم ہونا اس کا ایک سبب ہے ۔میرا سر نے مجھے ایک خوبصورت سبق آموز واقعہ سنایا ۔ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ایک امیر شخص کے پاس ایک چوکیدار کام کرتا تھا یہ شخص ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ اس چوکیدار کے منہ سے کبھی شکوہ نہیں سنا ایک دن اس نے اس کی تنخواہ بڑھا دی لیکن چوکیدار میں کوئی رد عمل ظاہر ہوا۔ نہ وہ اس کا شکریہ ادا کرنے آیا ۔ کچھ عرصے کے بعد اس نے اس کی تنخواہ کو کم کر دیا اب اس کا خیال تھا کہ اب تو وہ ضرور آئے گا لیکن اس کی سوچ کے برعکس چوکیدار پر کچھ اثر نہ ہوا اپنا کام پہلے کی طرح ایمانداری سے کرتا رہا۔ آخر کار اس نے اس کو بلایا وجہ پوچھی کیا تم انسان ہو یا فرشتے تم پہ کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا پہلے میں تمہاری تنخواہ بڑھا دی اور پھر کم کر دی ۔ چوکیدار نے بڑا کمال جواب دیا کہ سر یہ میرے رب کے فیصلے ہیں اور میں اس پر راضی ہوں جب تنخواہ بڑی تو میرا بیٹا پیدا ہوا میں خوش تھا کہ وہ اپنا نصیب لایا ہے اور جب کم ہوئی تو میرے والد کا انتقال ہوا مجھے لگا کہ وہ اپنا نصیب بھی ساتھ لے گئے ہیں اس واقعہ سے آپ کیا سھیکتے ہیں یہ میں آپ پر چھوڑ ہوں لیکن ڈپریشن کے حل کے لے توکل مضبوط ہونا لازمی ہے.
اسی طرح معاشرے میں رہتے ہوئے اچھائیوں کے کام کو ہاتھ سے جانے مت دینا ہے۔یہی اچھائیاں کل آخرت میں کام آنی ہے۔جیسی سوچ ویسی منزل ۔ایک بھائی کا ہیلپ ہی آپ کی اپنی ہیلپ ہے۔دوسری بات کسی دوست بھائی یا عزیز رشتہ دار جب مجبوری میں آپ سے پیسے مانگتا ہے تو اسکی مدد ضرور کریں مگر اس بندے تو یہ بھی کہہ کر سیکھا دو کہ ‘کسی کو مچھلی پکڑ کر مت دو بلکہ اس کو مچھلی پکڑنا سیکھو۔منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہے ہو ناداں اتنا عظیم بن جا منزل تجھے پکارے
اپنے آپ میں محنت اور مشقت سے ایسی ہمت پیدا کرو بڑھائی آپ کی قدم چومے گی ۔آپ کے نجی مسائل حل ہونگے۔مگر میں نے بہت زیادہ محنت اور قابل بندوں کو مذدوری کرنا دیکھا ہے ۔اس معاشرے میں ایمانداری کی بنیادوں پر جھوٹ اور فریب کے دانے لگے ہوئے ہیں ۔سچ کا پورے کو پانی اور دھوپ بند کر دیا ہے سچ کا پودہ اس معاشرے میں آہستہ آہستہ مرجھا رہا ہے۔یہی ہن
ہماری معاشرے کی حقیقت ہے ۔برائی کو سامنے دیکھتے ہوئے رہنے والوں ۔اپنے حق کو چھنتے ہوئے سامنے دیکھنے والوں ۔اپنی زمینوں پر قبضہ مافیا کو سامنے سے دیکھنے والے آج دعویٰ کر رہا ہے کہ ہم صابر و شاکر ہے ۔صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے ۔ہر چیز کے قائدانہ قوانین موجود ہے ہر چیز کا ایک مخصوص جگہ ہے۔جس قوم کو اپنی آزادی کا پتا نہیں وہ قوم اپنے تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کر سکتی ہے ۔سوئی ہوئی قوم کو بیدار کروانے کے لئے شاعر مشرق جیسے لیڈر ہم کہاں سے لائینگے۔
گلگت بلتستان کا قوم اپنے اپنے گھروں تک محدود کر رکھا ہے ۔قومی مسائل پر کوئی آواز ہی نہیں اٹھا سکتا ہے ۔قومی اور وفاقی پارٹیوں رنگ نسل کی بنیاد پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ملی اتحاد کی اہم ضرورت ہے۔جی بی کے قوم اپنے صفوں میں اتحاد کے پرچم کے سایہ جمع ہو کر ملک پاکستان کے ساتھ قائدانہ مظاکرات کریں ۔گلگت بلتستان میں میڈکل کالجز کی قیام اور دیکر نیشنل لیول کی باتیں شرائط کے ساتھ بند باندھیں ۔اپنے آپ کو مضبوط قوم بنائیں ۔جی بی اسمبلی میں پڑھے لکھے ایماندار لیڈرز کو لانے میں اہم کردار آپ کی آپس کی اتفاق میں موجود ہے ۔گلگت بلتستان ایک مرکزی کور کیمٹی بنائیں ۔جو جی بی لیول کے مسائل کو حل کریگی۔جس میں نوجوان پی ایچ ڈی ہولڈرز بھی شامل ہوں ۔اس کور کیمٹی کو اتنا مضبوط بنائے کہ چیف سیکریڑی اور دیگر وزیراعلی وغیرہ بغیر مشاورت کے حکومت تک نہ آ سکے ۔اس کور کیمٹی سے عوامی مسائل پر اہم عہد دار کسی بھی عوامی اشو بغیر بات چیت کے نہیں کرینگے۔کور کیمٹی گلگت بلتستان ہی جی بی کے عوام کی محفظ ہو گی ۔یہ سب کچھ آپس کی اتحاد اور اتفاق سے مکمن ہے ۔ہماری اتفاق ہی سے ہم زندہ قوم ہے ۔تمام معاشرتی مسائل آپس کی اتفاق سے حل ہو سکتے ہیں ۔جہاں ملی اتفاق ہو وہاں پر قوم کا اعتماد بحال ہو جاتا ہے ۔
وسلام
تحریر یاسر دانیال صابری

گلگت بلتستان بیوروکریسی میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر تبادلے کردئیے گئے، نوٹفیکیشن جاری

شگر پاکستان تحریک انصاف شگر کا راجہ اعظم کے پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد کی صورتحال پر غور کیلئے خالد خورشید کی ہدایت پر ہنگامی اجلاس

Urdu news, urdu column, Difficulties in life and us

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں