بھارت سعودی عرب تعلقات. پروفیسر قیصر عباس
بھارت سعودی عرب تعلقات. پروفیسر قیصر عباس
Urdu news, Urdu article, India Saudi relationship
اس وقت دنیا میں یہود ٫ہنود اور نصاریٰ کا نظریہ متروک ہوچکا ہے موجودہ دور میں ہر ملک کی خارجہ پالیسی معاشیات کے گرد گھوم رہی ہے اس کی تازہ ترین مثال سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا بھارت کادورہ ہے اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 50 سے زائد معاہدات ہوئے ہیں اب سوال یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ مسلم امہ کا راگ الاپا ہے تو برادر اسلامی ملک کے ولی عہد نے ایک اسلامی ملک کو نظر انداز کرتے ہوئے اس ملک کادورہ کیوں کیا جس نے مسلمانوں کا اپنے ملک اور کشمیر میں جینا حرام کیا ہوا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اب ہر ملک صرف اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہی اپنے پالیسیوں کو تشکیل دیتا ہے۔جب کہ ہم نے حقیقت پسندی کو نظر انداز کرتے ہوئے ابھی تک مثالیت کا شکار ہیں اور ابھی تک نظریات کے گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے ہی خیالات کی سلطنت میں سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔جس کا ہمیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان نے بروز پیر گیارہ ستمبر 2023 کو بھارت کا دورہ کیا ہے جس میں دونوں ممالک کے درمیان مختلف نوعیت کے پچاس معاہدات طے پائے ہیں۔واضح رہے کہ سن 2019ء کو ہندوستان و سعودی عرب سٹریٹجک کونسل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے لئے کام کرتی ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے سعودی عرب کو ہندوستان کے سب سے اہم شراکت داروں میں سے ایک قرار دیا ہے۔مودی کے مطابق” یہ راہداری نہ صرف دونون ممالک کو آپس میں جوڑے گی بلکہ ایشیا٫ مغربی ایشیا اور یورپ کے درمیان اقتصادی تعاون ٫توانائی کی ترقی اور ڈیجیٹل رابطے کو مضبوط کرے گی”۔بات چیت سے قبل ولی عہد محمد بن سلمان کا راشٹرپتی بھون (صدارتی محل)میں استقبال کیا گیا۔علاوہ ازیں سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفلح نے پیر کے روز نئی دہلی میں کہا “کہ سعودی عرب اپنے خود مختار ویلتھ فنڈ کا دفتر بھارتی شہر گجرات میں قائم کر سکتا ہے “.ولی عہد کے دورے کے دوران 50 ابتدائی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے ایک مشترکہ ٹاسک فورس قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔وہ لوگ جو مسلم امہ کا ورد کرتے نہیں تھکتے ان کی اطلاع کے لئے عرض کرنا ضروری ہے کہ دوسری طرف اسرائیل کے ایک وفد نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں جاری یونیسکو کے اجلاس میں پیر کے روز شرکت کی ہے کسی بھی اسرائیلی وفد کا سعودی عرب کا پہلا اعلانیہ دورہ ہے۔پانچ رکنی وفد یونیسکو کی ثقافتی اور تاریخی مقامات کے عالمی ورثے کی فہرست کو ازسر نو ترتیب دینے کے لئے اتوار سعودی عرب پہنچا تھا۔ملاقات کے دوران دورے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے وفد کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا “ہم یہاں آکر خوش ہیں٫یہ ایک اچھا پہلا قدم ہے۔ہم یونیسکو اور سعودی حکام کا شکریہ ادا کرتے ہیں”اسرائیلی عہدیدار نے بتایا” ٹیم نے دبئی کے راستے سفر کیا ہے کیونکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان کوئی براہ راست پرواز نہیں ہے”۔یہ وفد پیر کے روز ہی اجلاس میں شرکت کے لئے ریاض پہنچا تھا۔اس وفد کے سامنے میز پر “اسرائیل” کا سائن بورڈ لگا ہو تھا۔اس سے پہلے بھی ترکی ٫مصر متحدہ عرب امارات جیسے اسلامی ملک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ۔یہاں اس بات کا حوالہ دینے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اسرائیل بارے کوئی نرم پالیسی اختیار کی جائے یہ مثال دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہر ملک نے اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے جب کہ ہماری تاریخ اٹھا لیں ہم نے قومی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ دوسروں کی کاسہ لیسی کی ہے۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہماری خارجہ پالیسی دو بلاکوں” امریکن بلاک اور رشین بلاک” کی نظر ہوگئی جب کہ ہمارے مقابلے میں بھارت غیر جانب دار تحریک کا بھی حصہ رہا اور امریکہ اور روس سے فوجی امداد بھی حاصل کرتا رہا۔اس کے بعد “افغان جہاد “کے زریعے ہم امریکہ کے “ہتھے چڑھ” گئے روس کی چوہدرہٹ کو ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ کلاشنکوف کلچر ٫منشیات اور افغان مہاجرین جو رہتے تو پاکستان میں ہیں مگر ان کی دلی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہوتیں ہیں۔9/11 بعد پھر سے ہم “فرنٹ لائن اتحادی “بن گئے اور شہر شہر بم دھماکے ہوئے ہمارا انفراسٹرکچر تباہ ہوکے رہ گیا۔بھارت کے ارباب اختیار نے کمال ہنر مندی سے ایک طرف سعودی عرب سے مراسم بنا رکھے ہیں جب کہ دوسری طرف ایران کو بھی رام کر رکھا ہے ایک طرف روس سے پٹرولیم مصنوعات خرید رہا ہے جب کہ دوسری طرف امریکہ سے فوجی امداد وصول کرتا ہے۔ہمارا یہ عالم ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ایران کا دورہ کرتے ہوئے اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہی سعودی عرب اور امریکہ ناراض نہ ہو جائے یاد رہے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ملائشیا میں سرابرہی کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی حالانکہ کہ یہ کانفرنس صرف اور صرف خان صاحب کی تجویز پر منعقد کی گئی تھی مگر اس وقت ترکی اور سعودی عرب کے درمیان سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی وجہ سے تعلقات تناؤ کا شکار تھے ۔سعودی عرب کے ولی عہد نے ناراضگی کا اظہار کیا اور ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم نے خود شرکت کرنے کی بجائے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کانفرنس میں شرکت کے لئے بیھج دیا۔بھارتی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی چند ٹھوس وجوہات ہیں پہلا اصول یہ ہے بھارتی پالیسیز ساز اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں ۔حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو وہاں کے ارباب اختیار ذاتی تعلقات بنانے کی بجائے سٹیٹ ٹو سٹیٹ تعلقات بناتے ہیں ان کی خارجہ پالیسی شخصیات کے گرد نہیں گھومتی بلکہ جو بھی حکمران آتا ہے وہ ریاستی مفادات کو مقدم رکھتا ہے اور حکمران کی تبدیلی سے ریاست کی پالیسیز میں تبدیلی نہیں آتی ۔سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ وہ امداد مانگنے کی بجائے ملک کے لئے سرمایہ کاری مانگتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ سارے اصول اس کے الٹ ہیں ہمارے ارباب اختیار ممالک سے ملکی سطح نہیں بلکہ ذاتی تعلقات بناتے ہیں ۔قومی مفاد کے تحفظ کی بجائے بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور سرمایہ کاری کی بجائے امداد مانگنے پر زور دیتے ہیں۔اس لئے موجودہ دور میں ہنود ٫یہود اور نصاریٰ والا نظریہ متروک ہو چکا ہے ہر ملک اپنے معاشی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دیتا ہے سوائے ہمارے۔
پروفیسر قیصر عباس!