جشنِ “مے فنگ” تاریخ کی تناظر میں :طہٰ علی تابش بلتستانی
تاریخ لکھتی ہے کہ گلگت بلتستان میں اسلام سے پہلے “بدھ مت” کا مذہب عام تھا، اور یہاں کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ بدھ مت سے پہلے بھی یہاں ایک مذہب کافی عرصے تک رہا، جسے عموماً “بون” مذہب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بون مذہب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً اٹھارہ ہزار سال قبل مسیح گلگت بلتستان کے لوگوں کا مذہب ہوا کرتا تھا۔ بون مذہب کے ماننے والے روحانی عبادات، قربانیوں اور جادو پر کافی اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنے دیوتاؤں کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھیں۔ ان کو خوش رکھنے کے لیے وہ بہت سی رسومات ادا کرتے تھے، جن میں سے ایک رسم “مے فنگ” بھی تھی۔ تاریخ کے مطابق، بون مذہب کے پیروکار آگ کے ساتھ کھیل کر اپنے دیوتاؤں کو خوش کرتے تھے۔
لفظ “مے” بلتی/تبتی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب “آگ” ہے، جبکہ لفظ “فنگ” پھینکنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاحی معنی میں آگ کے ساتھ کھیلنے کو “مے فنگ” کہا جاتا ہے۔ مے فنگ کو شنا زبان میں “لوما” اور بروشسکی زبان میں “تھومو شلنگ” کہتے ہیں۔
یہ تہوار بلتی ثقافت میں بون مذہب سے بدھ مت اور بدھ مت سے اسلام میں منتقل ہوا، اور آج بھی یہ ہر سال 21 دسمبر کی رات بلتستان کے علاوہ ضلع گلگت، چترال، ہنزہ اور چین میں تبت کے بعض علاقوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے علاقے لداخ اور کرگل میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
بعض مورخین کے نزدیک جشنِ مے فنگ 21 دسمبر کو اس لیے منایا جاتا ہے کیونکہ یہ تاریخ تبتی کیلنڈر کے مطابق “نئے سال” کی آمد کی خوشیوں سے منسوب ہے، جسے بلتی میں عموماً “لوسر” کہا جاتا ہے۔ اس دن سال کی سب سے لمبی رات ہوتی ہے، اور 21 دسمبر کے بعد راتیں چھوٹی ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لوسر دراصل بہار کی آمد کو خوش آمدید کہنے کا تہوار ہے۔
بعض بزرگوں کے مطابق جشنِ مے فنگ کو مقپون خاندان کے دور میں عروج ملا۔ مقپون خاندان کے دور میں ایک ظالم حکمران تھا، جسے عام طور پر “عبدہ خان” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ عبدہ خان کو بلتی میں “میزوس عبدہ خان” کے نام سے شہرت ملی، جس کا مطلب “انسان کھانے والا” یا “انسان کا خون پینے والا” ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص بہت ظالم حکمران تھا، جو شگر کے راجہ کی نسل کشی کا سبب بھی بنا۔ جس دن عبدہ خان کو قتل کیا گیا، اس دن سے لوگ جمع ہو کر یہ رسم ادا کرنے لگے اور آگ کے ساتھ کھیلنے لگے۔
بہرحال، جشنِ مے فنگ گلگت بلتستان کی بہترین ثقافتوں میں سے ایک اہم ثقافت ہے ۔ اور جشن مے فنگ کو بلتستان بھر میں کئی سالوں سے پزیرائی مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور بلتستان کی ثقافتی تنظیموں نے ہر سال اس تہوار کو علاقائی سطح پر جوش و خروش سے منانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بچے، بزرگ اور جوان 21 دسمبر کی رات کو “لنڈر” ( آگ کے گولے ) لے کر پہاڑوں اور دیگر مقامات پر آگ کو ہوا میں پھینکتے ہیں۔ لوگ اپنی چھتوں سے آگ پھینک کر خوشیاں مناتے ہیں، اور خواتین گھروں میں مزیدار پکوان تیار کرتی ہیں۔ نوجوان طبقہ مخصوص انداز میں رقص کرتا ہے، اور لوگ بلتی اور شنا زبان کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یقیناً “ثقافت کی موت قوم کی موت ہوتی ہے”، اور جو قوم اپنی ثقافت بھول جاتی ہے، اس کا نام و نشان دنیا سے مٹ جاتا ہے۔
تحریر نگار: طہٰ علی تابش بلتستانی
حوالہ جات : ویکیپیڈیا، کتاب تاریخ بلتستان اور دیگر ویب سائٹس۔
تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، تاکہ بلتستان کا ہر فرد اسے سمجھ کر یہ تہوار منا سکے۔
Urdu news update, history of jashn e mayfang
احساس کی اہمیت: کمتری، محرومی اور برتری، آمینہ یونس بلتستان
جشنِ مے فنگ فطرت، خوشی اور ثقافتی ہم آہنگی کا تہوار، سید مظاہر حسین کاظمی




