اتحاد وقت کی ضرورت، اسلم بیگ
اتحاد وقت کی ضرورت، اسلم بیگ
urdu news, Unity is the need of the hour
تاریخ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ قوموں کے عروج و زوال،ترقی و تنزلی،خوش حالی اور بد حالی کے تقدم وتخلف میں اتحاد و اتفاق،باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلاف و انتشار اور تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔کوئی بھی قوم جب تک اتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح ونصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جوں ہی انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا نیز ساتھ ہی ساتھ اتحاد و اتفاق اور اجمتاعیت کے فقدان کی وجہ سے ان قوموں کا نام صفحہ ہستی سے حرف مکرر کی طرح مٹا دیا گیا۔
بقول شاعر
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
urdu news, Unity is the need of the hour
اسلام ہی واحد مذہب ہے جس نے اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور امتِ مسلمہ کے سامنے پیش کیا اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق پر ہمیشہ زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے اندر کافی حد تک اتحاد و اتفاق کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔
ملت کے درمیان اختلاف وانتشار کا ایک اہم سبب جزوی اور فروعی اختلافات کو اصول وکلیات کا درجہ دے دینا ہے۔ یعنی ہمارے دینی پیشوایان عوام کے سامنے جزوی اختلاف کو دین کی اساس بنا کر پیش کرتے ہیں۔ علمی بحث کو اپنے درمیان رکھنے کی بجائے عوام کے درمیان لاتے ہے اور بحث کو بطور اختلاف پیش کرتے ہے جس کی وجہ سے دوسروں کے خلاف بہت سی خلافِ حقیقت غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور اپنے اس مذموم عمل میں ان کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی حقیر دنیاوی اور گروہی اغراض کی خاطر دین وملت، علاقے کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
urdu news, Unity is the need of the hour
ہمارے دونوں طرف کے علمائے کرام،نوجوانوں اور تمام لوگوں سے بدست گزارش کرتا ہوں ذرا سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں کہ مسلمانوں کے کسی مسلک میں اگر کوئی حقیقی گمراہی پائی جاتی ہے تو اس کو آپ نفرت کے ذریعے کس طرح دور کر سکتے ہیں۔ کسی بھی فرد یا گروہ کی اصلاح کا فطری اور معقول طریقہ تو یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئیں۔ ان کو اپنی بات سننے پر آمادہ کریں اور پھر ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت کے جو اصول اور داعی کے لیے جو بنیادی اور ضروری اوصاف قرآن اور رسولﷺ کے سیرت میں پائے جاتے ہیں تو کیا وہ صرف غیر مسلموں کی دعوت کے لیے ہی مخصوص ہیں؟؟ اور مسلمانوں کی اصلاح کیا منفی فتوے بازی اور نفرت وافتراق پیدا کرکے ہی کی جاسکتی ہے؟ بات دراصل یہی ہے کہ ہمارے علمائے کرام اسلامی دعوت اور اتحادِ ملت کا مشن ہی اپنے سامنے نہیں رکھتے، بلکہ مسلمانوں کے درمیان گروہ بندی اور تفرقہ اندازی کے ذریعے اپنے معمولی اور عارضی دنیاوی اغراض ہی ان کے پیشِ نظر رہتے ہیں۔ دونوں علمائے کرام عملی طور پر اتحاد کا مظاہرہ کرے محض پر زور نعروں اور شیریں بیان وشعلہ بیان مقررین کی سحر انگیز اور ولولہ انگیز تقریروں سے کچھ نہیں ہوتا۔ دونوں گروہ وقتی منفعتوں اور مصلحتوں سے بالاتر ہو کر ایسی بنیاد تلاش کی جائے جس پر دونوں کا اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی مضبوط و مستحکم عمارت تعمیر کی جا سکے اور یہ اتحاد اسلام کی سر بلندی اور گلگت بلتستان پھر پاکستان کی ملی و قومی اور مسلکی واختلافی مسائل کے حل کا ذریعہ بن سکے۔
خلاصہ کہ تمام مزاہب کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ہرہر مسلک کے مابین اختلاف ہے۔ باپ بیٹے ،ماں بیٹی، استاد شاگرد، الغرض ہر انسان کے درمیان اختلافات موجود ہے کیونکہ اختلاف انقلاب کی پہلی سیڑھی ہے۔اتحاد کا اصول صرف یہ ہوگا کہ کسی بھی مسلک کے افراد کو ایسے کسی بھی عمل سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے جس سے دوسرے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔ اس بنیادی اصولِ اتحاد کے مطابق شیعہ مسلمانوں کو فضیلتِ حضرت علیؓ کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر صحابۂ کرامؓ، خصوصاً خلفائے راشدینؓ اور ازواجِ مطہراتؓ کی شان میں ادنیٰ سے ادنیٰ بے ادبی یا بدکلامی سے تائب ہونا چاہیے اور موجودہ وقت میں جو بہت سے نئے سنی مصنّفین صرف شیعہ مخالفت کے منفی ردِ عمل کا شکار ہوکر حضرت امام حسینؓ کی شان میں ادنیٰ سے ادنیٰ گستاخی یا ان کے مقصدِ شہادت کی تنقیص اور ظالم یزید کی تحسین وتوصیف کرنے لگے ہیں، ان کو بھی اپنے اس مذموم عمل سے توبہ کر لینی چاہیے۔تاریخی اور علمی اختلافات کو علمی حلقوں تک محدود رکھا جائے کیونکہ ان کے اس منفی عمل سے اتحادِ امت کے نقصان کے ساتھ ان کی آخرت بھی ناکام ونامراد ہو سکتی ہے۔ آج دنیا کی تمام اسلام دشمن طاقتیں شیعہ سنی منافرت پر تمام کوششیں صرف کر رہی ہیں کیونکہ شیعہ سنی اتحاد میں ان کو اپنی موت نظر آتی ہے۔ لہٰذا دنیا کے موجودہ حالات، بالخصوص پاکستان کی موجودہ صورتِ حال اور پسِ منظر میں شیعہ،سنی اتحاد کی ہر کوشش اسلام اور امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔
آج عراق، شام اور فلسطین کی مثالیں ہمارے لیے درسِ عبرت ہیں،پڑوسی ملک جس کا قیام ہی اسلام کے نام پر ہوا تھا وہاں پر صورتحال تو اور بھی زیادہ بد ترین ہے،فقہی اختلافات اور مسلکی موشگافیوں نے نفرت و عداوت کے ایسے خطرناک بیج بوئے ہیں جس کے نتیجے میں مساجد جیسے مقدس مقامات پر بم بلاسٹ ہو رہے ہیں،کاش کہ ہم عذاب الہی سے ڈر کر اب بھی سنبھل جائیں۔
گلشن کو نظر لگنے میں دیر نہیں لگتی۔ خدارا خدارا ہوش کے ناخن لیں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر، سر زمیں بے نظیر گلگت بلتستان کو بھی شام و فلسطین میں تبدیل ہو جائیں گے۔
گلگت بلتستان میں امن و امان کی صورت حال بہت تشویش ناک ہوگئی ہے اور ایک غیر یقینی سی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ حالت گلگت بلتستان کی معاشرہ سازی، اصلاحِ معاشرہ،معاشرتی تعمیر اور معاشی و سیاحتی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی یے۔لہذا علاقے کی فلاح و بہبود کی خاطر دونوں مکتب فکر کے علمائے کرام، نوجوان اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرے۔ عوامی جذبات کو ابھارنے کے بجائے قومی اتفاق کےلیے کوشش کریں۔
کیونکہ
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی
ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پَنپنے کی یہی باتیں ہیں
urdu news, Unity is the need of the hour