موت کا کنواں . محمد اعظم شگری
موت کا کنواں . محمد اعظم شگری
urdu news
“ہیلو جی آپ ابھی تک گھر کیوں نہیں آئے؟ جلدی آئیے بچے کی طبیعت خراب ہو رہی ہے”۔ حلیمہ گھبراہٹ کے ساتھ گفتگو کر رہی تھی۔
“کیا ہوا ہے بچے کو؟ معمولی سا بخار ہوگا تم خواہ مخواہ گھبراہٹ محسوس کر رہی ہو۔۔ مجھے کام سے ابھی چھٹی ملی ہے میں بس نکلنے والا ہوں۔۔ تم پریشان نہ ہو۔” الطاف نے اپنی بیوی کو تسلی دینے کی کوشش کی تاکہ اس کے گھر آنے تک ضبط برقرار رہے۔
الطاف اسکردو کی طفیل کالونی میں کراے کے مکان پر رہتا تھا ان کی شادی کو پندرہ سال گزرنے کے بعد دوا، دعا، دم درود کے بعد ان کے ہاں ایک چاند سا پیٹا پیدا ہوا تھا جس کی عمر سات سال تھی۔ بڑی طلب و تمنا کے بعد ان کے ہاں اولاد ہوئی تھی اس لیے بچے کا نام جگر رکھا تھا۔ جگر کی پیدائش کے سات سال گزرنے کے باوجود ان کے ہاں دوسری اولاد نہیں ہوئی تھی۔ دوسری اولاد نہ ہونے کی وجہ سے جگر والدین کے لئے دل و جان سے عزیز تھا۔ اس کے سر میں اکثر اچانک درد ہوتا تھا آہستہ آہستہ شدت بڑھنے لگتی تھی۔ جس وجہ سے والدین فکر مند رہتےتھے۔ urdu news
“کیا ہوا ہے میرے بیٹے کو؟ دیکھو میں آگیا ہوں ابھی ہم اسپتال لے چلیں گے۔ جگر بیٹے خیریت سے ہیں؟” الطاف کی آواز میں بے قراری تھی مگر ضبط برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔
” ابو میرا سر ۔۔۔۔” جگر تڑپ تڑپ کر رونے لگا۔ urdu news
“بیٹے تم بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔میرے بچے ابھی ہم اسپتال جا رہےہیں۔ ڈاکٹر دوا دیں گے تو سر درد ٹھیک ہو جائے گا۔”
“دیکھیے نا میرے بیٹے کی حالت وقفے وقفے سے غشی طاری ہو رہی یے۔ درد کی شدت ناقابل برداشت ہے۔ میں یہ حالت نہیں دیکھ پا رہی۔ اگر میرے بچے کو کچھ ہوا تو میں جیتے جی مر جاؤں گی۔” حلیمہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
“تم بھی اس طرح رونے لگ جاؤ گی تو مجھے کیسے حوصلہ آئے گا؟ مہربانی فرما کر رونا بند کردو میں ٹیکسی منگواتا ہوں تم جلدی سے تیار ہو جاو۔”
جب جگر کو جی ایچ کیو اسپتال اسکردو لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بچے کی حالت تشویشناک جان کر ایمرجنسی تشخیص شروع کر دی۔ معمولی سے چیک اپ کے بعد سیٹی سکین کرانے کے لیے کہا گیا بدقسمتی سے عین وقت پر شہر کی لائٹ چلی گئی تھی۔ ویسے بھی اسکردو میں پانی اور بجلی کا بحران سنگین حد تک ہوتا ہے۔ آدھا دن گزرنے کے بعد بجلی آئی اور فوراً انھوں نے سیٹی سکین کرایا۔ شام کو رپورٹ آئی اور ڈاکٹروں کی ٹیم نے الطاف کو بلایا اور پہلے حوصلہ دیا پھر ان سے کہا گیا کہ آپ کے بچے کو برین ہیومر ہوا ہے جلد از جلد اس کو راولپنڈی لے جانا ہوگا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اسکردو میں ایم آر آئی کرنے کی سہولت نہیں یہ سہولت راولپنڈی یا کسی دوسرے شہر میں ہی میسر آسکتی ہے۔ الطاف ایک تو پڑھا لکھا نہیں تھا دوسری بات وہ اس قسم کی بیماریوں کے بارے میں جانکاری نہیں رکھتے تھے سو چند لمحے کے لیے وہ ڈاکٹروں کی بات سمجھنے سے قاصر رہا۔ ڈاکٹروں کے سمجھانے پر وہ فقط اتنا سمجھ سکا کہ یہ کوئی دماغی بیماری ہے۔ اور کافی تشویش ناک بھی ہے۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وقت پر علاج نہیں ہوا تو کینسر ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ کینسر کا نام سن کر الطاف پاگلوں کی طرح اچھل کود کرنے لگے کیوں کہ اس بیماری نے ان کے بہت سے عزیزوں کی جان لی تھی۔ وہ اپنے سر پیٹنے لگا مگر ڈاکٹروں نے سمجھایا کہ ایسے موقعوں پر رونے دھونے سے زیادہ ہوش مندی سے کام لینا چاہیے۔ بروقت سفر کا انتظام کریں تاکہ علاج جلد از جلد ممکن ہو۔ urdu news
“آپ آ گئے؟ کیا کہاں ڈاکٹروں نے؟ اور جگر کہاں ہے؟” الطاف کے ساتھ جگر کو نہ پا کر حلیمہ تشویش کا اظہار کرنے لگی۔
“تم پریشان نہ ہو جگر ایمرجنسی میں ہے۔ وہ ٹھیک ہے۔ ڈاکٹروں نے راولپنڈی لے جانے کے لیے کہا ہے۔”
“مجھے پریشانی ہو رہی آپ سچ سچ بتاتے کیوں نہیں؟ سر درد کے لیے راولپنڈی لے جانے کی نوبت کیوں آئی؟ کوئی بڑی بیماری ہوگی تبھی تو ڈاکٹروں نے کہا ہوگا۔” حلیمہ بے اختیار گلے لگ کر رونے لگی۔
“اے میری بیگم تم پریشان نہ ہوں وہ بالکل ٹھیک ہے بس ایک ٹیسٹ لازمی کروانا ہے مگر وہ ٹیسٹ یہاں اسکردو میں نہیں ہوتا۔” الطاف نے برین ہیومر کا تذکرہ نہیں کیا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔
“ایسا کیا ٹیسٹ ہے جو یہاں نہیں ہوتا؟”
“ایم آر آئی کروانے کو کہا ہے جس کی یہاں سہولت نہیں۔”
“لعنت ہو ایسی سروس پہ جہاں فقط ٹیسٹ کروانے کے لیے دوسرے شہر جانا پڑتا ہے۔ ہمارے نمائندے مشینیں یہاں کیوں نہیں لاتے؟ باقی ساری مشینیں آ سکتی ہے تو یہ ایم آر آئی والی مشین کیوں نہیں آ سکتی؟” حلیمہ اس قدر پریشانی اور بے بسی کا مظاہرہ کر رہی تھی جس کا ازالہ بھی ممکن نہیں تھا اس وقت۔ urdu news
حلیمہ کو فقط مشین کی فکر لاحق تھی مگر الطاف بچے کے علاج، سفر کے انتظامات، ڈاکٹروں کی فیس سبھی حوالے سے پریشان تھے۔ انھوں نے آدھے مہینے کسی ٹھیکیدار کے ساتھ کام کیا تھا اس کی اجرت بیس ہزار بنتی تھی۔ ان کے پاس اس وقت وہی بیس ہزار انکم تھی۔ انھوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں، محلے داروں سے امداد کی اپیل کی کہ وہ ان کے ساتھ تعاون کریں۔ الطاف غریب ہونے کے باوجود غیرت مند بھے تھا۔ کبھی انھوں نے کسی کے آگے دست طلب دراز نہیں کیا تھا مگر بیٹے کی محبت میں انا کی قربانی دینی پڑی۔ زندگی میں پہلی دفعہ انھوں نے امداد کی اپیل کی تھی جس وجہ سے سبھی نے توقع سے زیادہ تعاون کیا اور ایک دن میں ان کے پاس ڈیڑھ لاکھ روپے جمع ہوئے۔ انھوں نے سب کا شکریہ ادا کیا اور جلد راولپنڈی کا ٹکٹ کٹوانے کی تیاری کی۔ جہاز کا سفر کرنا چاہا مگر کرایہ تیس ہزار سے زیادہ ہونے کی وجہ سے استطاعت نہیں ہوئی۔ زمینی سفر میں انھوں نے بس کا ٹکٹ لینے کے بجائے کار بک کروائی تاکہ جلد از جلد راولپنڈی پہنچ سکیں۔ urdu news
اسکردو سے راولپنڈی عمومی طور پر اٹھارہ سے بیس گھنٹے کا راستہ ہے۔ انھوں نے صبح سویرے سفر شروع کیا ڈامبوداس پہنچے تو معلوم ہوا برف کا تودہ گرنے سے روڈ بند ہے۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ دو گھنٹوں میں راستہ کھل جائے گا۔ ان دونوں میاں بیوی نے سخت بے قراری میں دو گھنٹے انتظار کیا۔ جب پورے ہوئے تب انھوں نے روڈ انتظامیہ سے معلوم کیا تو پتا چلا مزید دو گھنٹے درکار ہوں گے۔ میاں بیوی اور بچے ایک دوسرے کا چہرہ تکتے انتظار کرتے رہے۔ صبر آزما اور طویل انتظار کے پورے پانچ گھنٹے بعد راستہ ٹرانسپورٹ کے لیے کھول دیا گیا۔
“یہ کون سا شہر ہے جہاں وردی والوں کے اشاروں پر سب کچھ ہو رہا ہے؟” حلیمہ ناآشنا زبان بولنے والے وردی والوں کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔
“کیا ہو گیا ہے تمھیں اسکردو سے تھوڑا آگے ہی تو ہے ڈامبوداس۔ کوئی اور شہر نہیں ہے یہ بھی اسکردو کا حصہ ہے۔ اس روڈ کو بنانے کا ٹھیکہ انھی وردی والوں کو ملا تھا۔ انھوں کے رحم و کرم پر ہیں ہم سب۔” الطاف بین السطور بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہہ نہ سکا۔
“ہمارے اپنے لوگوں کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگی ہوئی یہاں اگر یہ بھی اسکردو کا حصہ ہے تو؟ ہمارے محلے کے بہت سے لوگ فوج، پولیس، رینجرز اور ائیر فورس میں ہیں۔” کبھی اسکردو سے باہر سفر نہ کرنے کی وجہ سے حلیمہ کے سوالات کا دائرہ بھی محدود تھا۔
گلگت اسکردو کے پر خطر روڈ پر جان جوکھوں میں ڈال کر ان کا سفر جاری تھا۔ ان کو سفر کی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی نہ بھوک پیاس کا مسئلہ تھا۔ ان کو جلد از جلد راولپنڈی پہنچنے کی فکر تھی تاکہ جلد از جلد بیٹے کی ایم آر آئی کروائی جا سکے۔ سفر کی وجہ سے جگر کے درد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ وقفے وقفے سے غشی طاری ہو رہی تھی۔ درد شدت اختیار کرنے پر ڈاکٹروں کی دی ہوئی دوا سے کسی حد تک آرام ملتا تھا۔ سڑک تو نئی بن گئی تھی مگر ہر موڑ خطرے سے خالی نہیں تھا جا بجا سڑک کنارے پتھر گرتے رہتے۔ موسم کی ذرا سی تبدیلی سڑکیں بلاک ہونے کے لیے کافی تھی۔ یہاں بارش شروع، وہاں بڑا سا پتھر اوپر سے آ گرا، لینڈ سلائڈنگ کے خدشات ہمہ وقت رہتے۔ جب ان کی گاڑی گزر رہی تھی تبھی سڑک کنارے چار لاشیں پڑی تھی گاڑی سمیت پتھروں کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔ جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ انھوں نے گاڑی رکوائی اور ان لاشوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کی مگر کوئی خاطر خواہ طریقہ ان کو سمجھ نہیں آیا۔ آخر میں یہی خیال آیا ہے ان وردی والوں کو بتا دیں کہ سڑک کنارے لاشیں پڑی ہیں۔ جب الطاف نے ان کو اطلاع دی تو انھوں نے فقط یہی کہا کہ
“یہ ہمارا کام نہیں ہے تم ریسکیو والوں کو اطلاع دو۔” urdu news
الطاف کو ان لاشوں سے زیادہ اپنے بیٹے کی فکر تھی سو انھوں نے سفر جاری رکھا۔ جب ان کی گاڑی گلگت پہنچنے والی تھی کہ اچانک موسلا دار بارش شروع ہو گئی۔ بارشوں کا سلسلہ شروع ہونا تھا کہ اوپر سے پتھر گرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انھوں نے جان بخشی کے لیے تمام دعائیں پڑھ ڈالی۔ وہ سڑک موت کا کنواں کہلانے کے لائق تھی سو اس سڑک پر بارشوں میں بھی سفر جاری رکھنا ان کی مجبوری تھی تاکہ جلد از جلد اس موت کے کنویں سے نکل سکیں۔ آدھا گھنٹے کی تیز بارش کے بعد بارش تھم گئی۔ ان کو تھوڑی سی تسلی ملی کہ بہت جلد وہ راولپنڈی پہنچ جائیں گے مگر تلو کے مقام پر لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے سڑک مکمل بند ہو چکی تھی۔ انھوں نے گاڑی سائڈ پہ لگائی اور سڑک کے کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ وہاں پر بھی حلیمہ نے وردی والوں کو دیکھا تو ان سے کہا کہ “میرے بیٹے کی طبیعت خراب ہے آپ لوگ برائے مہربانی جلد از جلد بلاک کھول دیں۔” مگر ان میں سے کسی نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی۔ وہاں سبھی ایک ہی نسل کے لوگ تھے جو کم از کم گلگت بلتستان سے تو نہیں تھے۔ ہر جگہ ان کو دیکھ کر حلیمہ سوچنے لگی کہ علاقے گلگت بلتستان کا۔ سڑکیں گلگت بلتستان والوں کے لیے بنائی گئی مگر اس سڑک پر اجنبی لوگوں کو مامور کیوں کیا ہے؟ اس کے پاس فقط سوال تھا اور جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔
وقت گزرتے گئے، چار سے چھ گھنٹے، چھ سے بارہ گھنٹے گزر گئے مگر ملبوں اور پتھروں کو ہٹانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ادھر والدین کی آنکھوں لمحوں میں بچے کو دیکھ رہی اگلے لمحے سڑک کی جانب دیکھ رہی۔ پورے چوبیس گھنٹوں بعد ان وردی والوں نے کام شروع کیا۔ ان سے اس قدر تاخیر سے کام شروع کرنے کی وجہ پوچھی تو معقول وجہ بتانے کے بجائے الطاف کو ماں بہن کی گالیاں دینے لگا۔ کسی نے کہا “سالے تیرے باپ کا نوکر بیٹھا ہوا ہے جو تیری مرضی سے ہم کام کرنے لگ جائیں۔۔۔” اگلی دفعہ اس طرح کی گستاخی کی تو تجھے نیچے دریا میں پھینک دوں گا۔”
“س س سر آئی ایم سوری مگر میرے بیٹے کی طبیعت ناساز ہے ہمیں جلد از جلد راولپنڈی پہنچنا ہے اسی لیے میں بار بار دیکھنے آرہا ہوں کہ بلاک کھل گیا ہے یا نہیں۔” الطاف ان وردی والوں سے سہمے ہوئے لہجے میں بڑے دھیمے لہجے میں بات کر رہا تھا۔
“ابے زیادہ چک چک مت کر۔ زیادہ سے زیادہ تیرا لڑکا مر جائے گا نہ۔۔ دماغ خراب مت کر ہمارے لیے یہ روز کا تماشا ہے سو رحم کی امید مت رکھ۔ جب سڑک کھلے گی تب اطلاع دی جائے گی جا کر تب تک کے لیے گاڑی میں مر رہیو۔” وردی والوں کے لیڈر کی آواز میں غصہ و نفرت تھی۔
الطاف کو آتے دیکھ کر حلیمہ گاڑی سے اتر آئی۔ “ان وردی والوں نے کیا کہا کتنی دیر میں بلاک کھلے گا؟”
“انھوں نے خاطر خواہ جواب نہیں دیا اب معلوم نہیں کب کھلے گا۔ انھوں نے ہمدردی جتانے کی بجائے الٹا دھمکانا شروع کر دیا تھا۔” الطاف کی آواز میں بے بسی کی لہر دوڑ رہی تھی۔
“آپ نے بتایا نہیں ہمارے بیٹے کی حالت تشویشناک ہے؟ ان کے بچے نہیں ہوتے کیا؟ کیا ان میں انسانیت نہیں ہوتی؟ رحم و کرم کا مادہ نہیں ہے؟” حلیمہ اب بھی گاؤں کی سادہ عورت کا مجسمہ تھی۔
“اپنائیت اپنوں سے ہوتی ہے، غیروں کو ہم سے کیا ہمدردی۔ ہم مریں یا جییں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی نظر میں ہم کیڑے مکوڑے ہیں۔ ہماری لاشیں جانوروں کی لاشوں سے زیادہ غیر اہم ہیں ان کے نزدیک۔ ان کی قوم عیاشیاں کرنے میں مگن ہے۔ ان کے بیوی بچوں کو تمام تر طبی، علمی سہولیات میسر ہیں۔ ان کے لوگوں کو کبھی موت کے کنویں جیسی سڑک پر سفر کرنا نہیں پڑتا۔ یہ لوگ کیوں کر ہم سے رحم دلی کے ساتھ بیش آئیں گے۔۔۔ یہ لوگ ہم پر بادشاہت کرتے رہیں گے، ہم پر حکم چلائیں گے۔ ہم ہی کو قتل کیا جائے گا اور ہم ہی قاتل کہلائیں گے۔۔۔۔” الطاف کی سانس پھولنے لگتی ہے۔۔
انتظار کرتے کرتے تیس گھنٹے گزر جاتے ہیں مگر سڑک ٹریفک کے لیے کھلنے کا نام نہیں لیتی۔ ان دونوں کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہاتھا۔ جگر کی حالت تشویشناک تھی۔ ان پر دوروں پر دورے پڑرہے ہیں اب تو ہوش میں بھی کم کم رہنے لگا ہے۔ ایک دم تھے۔ جگر کے گلے سے چیخوں کی آواز نکلنے لگی۔ الطاف جگر کے چہرے تھپتھپا کر بلاتا ہے مگر وہ کچھ بول نہیں پاتا۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہے اور یوں سسک سسک کر ان دونوں کا بچہ کسی ویران سی سڑک کے کنارے مر جاتا ہے۔
حلیمہ اپنے بالوں میں خاک ڈال کر زار و قطار رو رہی تھی اور الطاف بھی اپنے سر کو سڑک کے ٹوٹے ہوئے پشتوں سے ٹکرا رہا تھا۔ حلیمہ پر اس صدمے کا اثر اس قدر گہرا پڑا کہ وہ بے ہوش ہو جاتی ہے ، ڈرائیور ان کو سیٹ پر سلا کر الطاف کو سنبھالنے لگتا تھا۔ ڈرائیو ان کے سر کو اپنے سینے سے لگا کر حوصلہ دیتا ہے اور ضبط و صبر کی تلقین کرتا ہے۔
“ہائے میری جان سے عزیز جگر کی اگر قدرتی موت آتی تو مجھے زیادہ دکھ نہیں ہوتا مگر اس کو اس بے دردی سے قتل کیا گیا اس غم کا ازالہ کسی صورت نہیں ہو سکتا۔” urdu news
“آرے یہ کیا بات کر رہے ہو کس نے قتل کیا تمھارے بیٹے کو؟ تم بیٹے کے غم میں پاگل ہوئے جا رہے ہو۔۔ کون ہے قاتل؟ یہاں تو کوئی قاتل نہیں ہے۔” ڈرائیو کی گاڑی میں بچے نے سسک سسک کر جان دی تھی اور انھوں نے قتل ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
“میں زندگی کی تلاش میں گھر سے نکلا تھا موت پا کر گھر لوٹوں گا۔ اس طویل انتظار نے میرے بیٹے کو موت تحفے میں دی ہے۔ یہ سڑک قاتل ہے، اس کو پر خطر بنانے والے میرے بیٹے کا اصلی قاتل ہیں۔ میرے بیٹے کا اصلی قاتل ایف ڈا۔۔۔۔۔۔ ہے