بلتستان یونیورسٹی کے بی ایس ایجوکیشن سال اول سمسٹر دوم کے طلبہ کا مطالعاتی دورہ
بلتستان یونیورسٹی کے بی ایس ایجوکیشن سال اول سمسٹر دوم کے طلبہ کا مطالعاتی دورہ
5 سی این نیوز
مسجدِ چقچن اور خپلو قلعہ کا مشاہدہ، دونوں تاریخی مقامات میں موجود ماہرین نے تفصیلی بریفنگ دی
دورے کا بنیادی مقصد مشاہداتی طریقہ تدریس کو تجرباتی نہج سے ثابت کرنا اور سمجھنا تھا۔ ڈاکٹر ریاض رضیؔ
سکردو بلتستان یونیورسٹی شعبہ ایجوکیشنل ڈیویلمنٹ بی ایس سال اول میقاتِ دوم سیکشن (اے) کے طلباء و طالبات نے خپلو کا مطالعاتی دورہ کیا۔ اِس دوران طلبہ نے مشہور تاریخی مسجد ”مسجدِ چقچن“ اور ”خپلو قلعہ“ دیکھا اور تاریخی پہلو سے آشنائی حاصل کرلی۔ میقاتِ دوم میں چونکہ تدریسِ اسلامیات (Method of Teaching Islamic Studies) کے عنوان سے ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے اور اُس مضمون میں ”طریقہ ہائے تدریس“ کی متعدد فصلیں ہیں اور اُن میں ایک فصل ”مشاہداتی طریقہ تدریس“ بھی ہے۔ دورے کا بنیادی مقصد طلبہ کو مشاہداتی طریقہ تدریس“ سے آشنا کرنا، مشاہداتی طریقہ تدریس کو تجرباتی نہج سے ثابت کرنا اور سمجھنا تھا۔ یہ دورہ طالب علموں کی خواہش اور کورس انچارج (ڈاکٹر ریاض رضیؔ) کی طرف سے تفویض کردہ ٹاسک کی تکمیل کےلئے کیا گیا تھا۔ اِس سلسلے میں مشہور تاریخی عبادتگاہ ”چقچن مسجد“ اور یبگو راجاٶں کی یادگار ”خپلو قلعہ“ طلبہ کے ذوقِ مطالعہ اور مشاہداتی طریقہ کو سمجھنے کےلئے منتخب کیا گیا۔ اولین طور پر چقچن مسجد میں ایک مختصر سا سیشن ہوا۔ مسجد کے نائب امام محمد زکریا صاحب نے ایک تفصیلی بریفنگ دی اور تاریخی حوالوں سے مسجد کی بنیاد رکھنے کی وجوہات بتائیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ گذشتہ چار سو سال سے اُن کے آباٶ اجداد مسجدِ چقچن کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھارہے ہیں اور یہ کام وہ سعادت سمجھ کر کررہے ہیں۔ وہ زیادہ تر حوالہ جاتی کتب سے استفادہ کررہے تھے۔ اُنہوں نے پیرکبیر سید علی ہمدانیؒ کی بلتستان آمد اور خپلو میں بدھ ازم کے بڑوں کے ساتھ پیر صاحب کے مکالمہ کا بھی ذکر کیا۔ مسجد کی ساخت، وضع قطع اور تزئین و آرائش سے اندازہ ہوا کہ اِس کی تعمیر میں جہاں فنیات کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہی روحانیات بھی پسِ پردہ رہی ہیں۔ یہ مسجد مبلغِ اسلام پیر کبیر سید علی ہمدانیؒ کی کاوشوں، روحانی برکتوں اور بین المذاہب (اسلام اور بدھ ازم) مکالموں کی نشانی ہے۔ اس اہم مطالعاتی دورے کا دوسرا ہدف ”قلعہ“ تھا جو تاریخی حیثیت کا حامل تو ہے ہی، تاہم فنِ تعمیر کا شاہکار بھی ہے۔ حسبِ معمول یہاں پر بھی ایک سیشن ہوا۔ ”محمد علی خان“ صاحب کی طرف سے دی گئی بریفنگ سے اندازاہ ہوا کہ یبگو خاندان کی یہ عظیم نشانی اپنے اندر کئی سو راز پنہاں رکھتی ہے۔ قلعہ میں داخل ہوتے ہی داہینے جانب چند ایک کمرے ایستادہ ہیں۔ یہ کمرے راجہ خاندان کے تیسرے چشم و چراغ کی رہائش کےلئے تعمیر کئے گئے تھے، اِسی سیدھ میں تھوڑا سا آگے بڑھیں تو ایک اور مکان ہے، معلوم ہوا کہ یہ دوسرے فرزند کی رہائشی تھی۔ راجہ خاندان کے یہ دونوں فرزند اگرچہ اقتدار میں تو نہیں ہوتے تھے البتہ راجگی خون کی وجہ سے اُن کا مقام و منصب ہوتا اور قابلِ تکریم ہوتے۔جبکہ سامنے کی طرف قائم مرکزی قلعہ صاحبِ اقتدار (راجہ) کی رہائش اور دربار لگانے کےلئے وقف تھا۔ تفصیلی بریفنگ کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ آج سے کئی سو سال پہلے کے راجے مہارجے طرزِ تعمیر کے شوقین ہوتے اور وہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹ، رعب و دبدبہ کے حامل ہوتے اور اُن کی زندگی عام لوگوں کی زندگی سے کئی سو گنا بہتر ہوتی۔ اِس لئے کہ راجہ بالآخر راجہ ہی ہے۔ اگر اُس کی زندگی اور عام لوگوں کی زندگی میں کوئی فرق نہ ہو تو پھر وہ راجہ کس چیز کا؟ بہر حال دونوں مقامات کا گہرا مشاہدہ کرنے کے بعد طلبہ کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ کسی اسکول میں جائیں اور آنکھوں دیکھا حال اور مشاہدہ کیا گیا احوال تفصیلی سے بیان کریں۔ یہ رُوداد لیکچرز کی صورت میں بھی ہوگی اور تحریری شکل میں بھی ترتیب پائے گی۔ دریں اثنا گفتگو کرتے ہوئے کورس انچارج ڈاکٹر ریاض رضیؔ نے کہا کہ اکیسویں صدی کا سب اہم ہدف جدیدیت سے آشنا ہونا اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے۔ جس طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں تغیرات و تبدلات ہوئے اور انسان نے تغیر پذیری کو قبول کیا اِسی طرح نظامِ تعلیم میں بھی معتد بہ تعداد طرائق مُتعارف ہوئے ہیں تاکہ کم وقت میں زیادہ سیکھانے کی روایت قائم ہو اور آسان راستے سے مشکل طلب مسئلہ حل ہوسکے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ صدیوں سے رائج تقریری طریقہ تدریس سے ہم سب بخوبی آشنا ہیں۔ اِس طریقہ تدریس کے تحت معلم یا معلمہ ایک مقرر کی حیثیت سے کمرہ جماعت میں توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ وہ زبان و بیان کی چاشنی اور خطابت کی مہارت سے طلبہ میں ذوق و شوق پیدا کرتا ہے اور اُنہیں متعدد اُمور سے باخبر کردیتا ہے۔ اب چونکہ تعلیم بھی نئے پیرائے میں داخل ہوچکی ہے اور نظامِ تعلیم کا روایتی عنصر بھی اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔ جدید معلم چاہتا ہے کہ طلبہ کو جو ٹیکنالوجی کے نزدیکی حصہ دار ہیں، اِس طرح سمجھائے کہ وہ مقرر کو سننے کے بجائے عملاً ہی متعلقہ درس کے پارٹنر ہوں۔ ظاہر ہے کہ اِس قسم کی حکمت کےلئے مدرس کو دیگر طریقہ ہائے تدریس کی طرف متوجہ ہونا ہوگا، معاونات کا استعمال کرنا ہوگا اور نئی ٹیکنالوجی سے بھی مستفیض ہونا ہوگا۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض رضیؔ نے مزید کہا کہ جہاندیدہ ہیں وہ اساتذہ کرام کہ جو طالب علموں کو علمیات کی طرف راغب کرتے ہیں اور اُنہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تعلیم محض رٹا مارنے کا نام نہیں بلکہ تجرباتی طور پر ثابت کرنے یا جذب کرنے کا نام ہے۔ ویسے بھی یہ دور صرف عبارت زبانی یاد کرنے اور چند ایک اسباق ازبر کا نہیں رہا بلکہ مجموعی قابلیت اپنے اندر پیدا کی گھڑی آگئی ہے۔ صرف ایک شعبہ میں ماہر ہونا بھی جدید دوور کی مسابقت کا کمزور پہلو شمار ہوتا ہے۔
Urdu News, Study visit of Baltistan University BS Education first year second semester students