قائد اعظم کا خطاب ،” تم سب آزاد شہری ہیں” بے سود! پروفیسر قیصر عباس!
قائد کا خطاب تم سب آزاد شہری ہو ،. بے سود! پروفیسر قیصر عباس!
urdu news, Leader’s Address You are all free citizens
14اگست2023ء کو ہم نے اپنا 76 واں یوم آذادی منایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے اہداف اور مقاصد حاصل کر سکیں ہیں جو ہم نے اس وطن عزیز کو حاصل کرتے وقت مقرر کئے تھے؟۔قائداعظم محمد علی جناح کا وہ خطاب جو انہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے 11اگست 1947ء کو فرمایاجس میں انہوں نے فرمایا کہ”اب آپ آذاد ہیں آپ اس ملک کے آذاد شہری ہیں آپ مسجد جائیں٫مندر جائیں ٫گردوارےجائیں یا پھر چرچ جائیں آپ پہ کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔”لیکن یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے جب بانی پاکستان نے بڑے واضح انداز میں مذہبی آذادی کے حوالے سے بات کردی تو پھر ہمارے ہاں 76سالوں کے بعد بھی جیواور جینے دو کی پالیسی پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ہم آج بھی خود کو درست اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نہ اپنا چھوڑو اور نہ کسی کو چھیڑو تاکہ پاکستان میں ایک مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملے اور ملک معاشی طور پر ترقی کی منازل طے کر سکے مگر ہم نے اس کی بالکل برعکس کام کیا جس کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت کی ایسی لہر اٹھی جس نے پورے ملک کے ہر کونے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ تو ایک پہلو ہے اب اگر دوسرے معاملات کی طرف دیکھا جائے تو ادھر بھی ہماری کارکردگی حوصلہ افزا نہیں ہے سب سے پہلے تو کسی بھی ریاست کو چلانے کے لئے دستور کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم بدقسمتی سے لگ بھگ 9 سال تک اپنا دستور نہیں بنا سکے اور جب 1956ء کا دستور بن گیا تو سیاست دانوں کی نالائقی اور سول و ملٹری بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اسے صرف دو سال سات ماہ تک چلنے دیا گیا اور پھر ایک آمر نے اس ملک پر قبضہ کر لیا۔اس کے بعد پارلیمانی دستور کو ختم کر کے ایک نیا تجربہ کیا گیا اور ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے بعد بنیادی جمہوریت کے 80000 نمائندوں کو ملک کے حکمران چننے کا اختیار دیا گیا۔ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح جو کہ ملک کی مقبول ترین راہنما تھیں کا مقابلہ ایک باوردی حکمران سے تھا اس الیکشن کے نتیجے میں ایک جمہوری سوچ رکھنے والی خاتون الیکشن ہار گئیں جب کہ اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے والا باوردی حکمران الیکشن جیت گیا۔ urdu news, Leader’s Address You are all free citizens جب اس آمر سے اقتدار پھر ایک آمر کو منتقل ہوا اور ملک میں 1945ءاور 1946ء کے بعد پہلی دفعہ براہ راست انتخابات ہوئے تو سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے سیاسی لیڈر پر شراکت اقتدار کے لئے دباؤ ڈالا گیا
اذادی کا فریب ، ملک کے حالات حاضرہ پر بہترین کالم
جس کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا۔جو ملک باقی بچ گیا تھا اس میں ایک بار پھر سے جمہوری قوتوں کو اقتدار سونپا گیا باظاہر جمہوری نظر آنے والے حکمرانوں نے اپنے سیاسی رویوں سے آمریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور ایک بار پھر سے ملک غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں میں چلاگیا۔اس بعد لولی لنگڑی جمہوریت کچھوے کی طرح چلتی رہی امید تھی کہ صبح نو کا آغاز ہوجائے گا مگر بدقسمتی سے ایک بار پھر سے جمہوریت کے طلوع ہوتےآفتاب کو آمریت کے سیاہ بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیااورآمریت کی یہ یہ گھپ اندھیری رات کم بیش نو سال تک کی طوالت اختیار کر گئی۔ارباب اختیار کے پاس ایک بار پھر موقع آیا کہ جہموری ڈگر پر چل کر جمہوری رویوں کو پروان چڑھایا جاتا مگر اناؤں کی ایک ایسی جنگ شروع ہوگئی جس نے جمہوریت کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی اور آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہر طرف مایوسی نظر آرہی ہے۔سیاست کے طالب علم اس بات سے آگاہ ہیں کہ پارلیمانی نظام میں ریاست کے تینوں ستون “مقننہ ٫عدلیہ٫انتظامیہ”اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئےفرائض سرانجام دیتے ہیں اگر مقننہ قانون سازی کرے ٫انتظامیہ اس پر عمل کروائے اور عدلیہ آئین کی تشریح کرے تو معاملات بہت حد تک سلجھ سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ تینوں ادارے ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرتے ہیں جس کی وجہ سے آئین کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی ۔بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت ختم ہو جائے عدلیہ انصاف اور آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے سیاست دان ذاتی مفادات اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر سیاست کریں سرحدوں کے محافظ اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کریں تو ممکن ہی نہیں کہ ہمارے حالات تبدیل نہ ہوں اگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتے تو پھر ہر سال آذادی کا جشن مناکر خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے جو کہ بے سود ہے۔ urdu news, Leader’s Address You are all free citizens