پی- ڈی -ایم 2 ، پروفیسر قیصر عباس
پی- ڈی -ایم 2 ، پروفیسر قیصر عباس
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 8فروری 2024 کے انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح ہیں ۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ جیتے ہوئے آذاد امیدواروں کی تعداد 93 ہے جب کہ مسلم لیگ نون 75نشتیں جیت کر دوسرے اور پیپلز پارٹی 54نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ان نتائج سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ان انتخابات میں سادہ اکثریت نہیں ملی اور سیاسیات کی اصطلاح کے مطابق ایسی پارلیمنٹ کو Hung Parliament(لٹکی ہوئی پارلیمنٹ) کہتے ہیں۔ “لٹکی ہوئی پارلیمنٹ”کا سب سے زیادہ فائدہ” مقتدرہ “کو ہوتا ہے کیونکہ ایسی پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں بنتی بلکہ بہت سی جماعتیں مل کر حکومت بناتی ہیں جسے مخلوط حکومت کا نام دیا جاتا ہے۔جب مخلوط حکومت بنتی ہے تو ایسی حکومت کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مخلوط حکومت میں مختلف الخیال رکھنے والی پارٹیاں شامل ہوتی ہیں اس لئے ہر جماعت اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے کوشش کرتی ہے نتیجتاً مفادات کا ٹکراؤ سامنے آتا ہے اور حکومت زیادہ دیر نہیں چلتی۔8فروری کے انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ نون کو اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔کے- پی- کے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدواروں نے میدان مارا ہے جب کہ سندھ پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا ہے ۔بلوچستان میں کچھڑی پکی ہوئی ہے۔اب تک کے سیاسی منظر نامے کو سامنے رکھیں تو پنجاب میں مسلم لیگ نون حکومت بنانے جارہی ہے ۔کے -پی- کے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدوار حکومت بنائے گے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی جب کہ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی۔بلکہ اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے صوبہ کے وزراء اعلیٰ کے امیدواروں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔پنجاب میں مریم نواز مسلم لیگ نون کی طرف سے وزیر اعلیٰ کی امیدوار ہونگی جب کہ ان کا مقابلہ لاہور سے ہی منتخب ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار میاں اسلم اقبال سے ہوگا۔کے- پی کے میں تحریک انصاف کی طرف سے ڈیرہ اسماعیل خان سے منتخب ہونے والے علی امین گنڈا پور وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں یاد رہے ٫ علی امین گنڈاپور ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کو قومی اسمبلی کی نشست پر بھی شکست دے چکے ہیں۔پیپلزپارٹی نے سندھ سے اپنے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا شنید ہے کہ اس دفعہ سید مراد علی شاہ کا” پتہ “کٹ گیا ہے اور سندھ سے فریال تالپور وزیر اعلیٰ کی امیدوار ہونگی۔بلوچستان میں یقیناً کوئی سردار ہی وزیر اعلیٰ بنے گا۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے ساتھ مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔مرکز میں مسلم لیگ نون حکومت بنائے گی اور شہباز شریف وزیر اعظم کے امیدوار ہیں۔پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم حمایت کرے گے مگر حکومت میں شامل نہیں ہونگے۔جب کہ پیپلز پارٹی کے حصے میں پاکستان کی صدارت ٫قومی اسمبلی کی سپیکرشپ ٫سینٹ کی چئیرمن شپ ٫سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں آئیں گی۔پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے وزیر اعظم کے امیدوار کا اعلان کردیا ہے ۔سابق فوجی آمر جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان تحریک انصاف کی طرف سے وزیراعظم کے امیدوار ہونگے۔ابھی تک سب سے حیران کن طرز عمل مولانا فضل الرحمان کا ہے انہوں نے میاں نواز شریف کے ساتھ چلنے سے انکار کیا ہے اور حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا ہے بلکہ میاں صاحب کو بھی اپوزیشن میں بیٹھنے کا مشورہ دیا ہے۔لیکن قوی امکان ہے کہ آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمان کو رام کر لیں گے ۔مولانا کے صاحب زادے اسعد محمود کو وزارت دے کر مولانا فضل الرحمان کو راضی کر لیا جائےگا۔اگر ایسا ہی سب کچھ ہوا تودوبارہ سے حکومتی اتحاد پی- ڈی -ایم 2 بننے جارہا ہے اور پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن بنچوں میں بیٹھے گی۔اس حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔خصوصی طور پر مہنگائی ٫بے روزگاری کو کنٹرول کرنا سب سے زیادہ ضروری ہوگا۔سیاسی میدان میں بہتری کے ساتھ ساتھ معاشی حالات کو بہتر کرنا پڑےگا۔ کیونکہ آئی- ایم- ایف کے ساتھ معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنا بہت ضروری ہیں ۔ان انتخابات کے بعد جو بات سب سے زیادہ دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف قومی اسمبلی کا حصہ تو ہونگے مگر وزیراعظم نہیں ہونگے حالانکہ مسلم لیگ نون نے میاں نوازشریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کا نعرہ لگایا تھا ۔کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ووٹ بنک نواز شریف کا ہے نا کہ شہباز شریف کا۔یہ پہلی دفعہ ہوگا کہ نواز شریف کے قومی اسمبلی میں ہوتے ہوئے شہباز شریف وزیراعظم ہونگے۔جب کہ مریم نواز جن کے پاس اس سے پہلے کبھی بھی عوامی عہدہ نہیں رہا انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی سیاسی اننگ کااغاز کرنا ہے ۔اس لئے مریم بی بی کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے کیونکہ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ مریم بی بی شریف فیملی کی سیاسی وارث ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ حمزہ شہباز کی ایڈجسٹمنٹ کہاں ہوتی ہے؟جب کہ فریال تالپور بھی سندھ میں پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونگی ان کی کارکردگی بھی آنے والے وقت میں کھل کر سامنے آجائے گی۔تاریخ میں مریم بی بی اور فریال تالپور پہلی خواتین وزراء اعلیٰ ہونگی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں خواتین کی کارکردگی مرد وزراء اعلیٰ سے کس قدر بہتر ہوگی ؟اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔
urdu news, column in urdu , PDM2
Sir your way of explaining current scenarios is outstanding.keep it up so that we can keep in touch with current and contemporary issues of Pakistan.