برج الٹ گئے! پروفیسر قیصر عباس
برج الٹ گئے! پروفیسر قیصر عباس
آخر کار ملک میں گیارویں عام انتخابات کا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔یہ انتخابات جس الیکشن کمشنر کی سربراہی میں کروائے گئے ان کا نام سکندر سلطان راجہ ہے جو بنیادی طور پر ایک بیوروکریٹ ہیں اور ان کا انتخاب اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی مشاورت سے ہوا تھا۔ان انتخابات میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا پاکستان تحریک انصاف کو کرنا پڑا کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما کو الیکشن سے ٹھیک نو دن پہلے مختلف مقدمات میں سزا ہوئی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشنز نہ کروانے کی وجہ سے ان سے انتخابی نشان “بلا” بھی واپس لے لیا گیا۔اگرچہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشنز کروائے اور بیرسٹر گوہر علی خان کو پاکستان تحریک انصاف کا چئیرمین بھی منتخب کروایا مگر سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور یوں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران تھے انہیں آزاد امید وار قرار دے دیاگیا۔اس سے تحریک انصاف کے لئے بنیادی طور پر دو مسائل ہوئے پہلا مسئلہ یہ ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران کو انتخابی نشان” بلا “ملنے کی بجائےمختلف انتخابی نشانات الاٹ ہوئے اور دوسرا قومی و صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کو ملنے والی خواتین اور غیر مسلموں کی نشستوں سے محروم کر دیا گیا۔خیر تمام جماعتوں نے بھرپور طریقے سے اپنی کمپین چلائی٫ جلسے جلوس کئے سوائے تحریک انصاف کے۔تحریک انصاف نےبڑے بڑے جلسے کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور کمپین کی۔جس کا فائدہ پولنگ والے دن پاکستان تحریک انصاف کو ہوا۔سارا دن پولنگ کا عمل جاری رہا۔چھوٹے چھوٹے مسائل بھی پیدا ہوئے مگر پولنگ کا مرحلہ خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچا۔گنتی شروع ہوئی تو نتائج نے سب کو حیران کر دیا کیونکہ اب تک کے نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ جیتنے والے امیدواران کی تعداد تقریباً 100ہوچکی ہے دوسری طرف مسلم لیگ نون 73نشتوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ پیپلز پارٹی 54نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ابھی تک کسی پارٹی کو بھی واضح اکثریت نہیں ملی۔قرین قیاس یہی ہے کہ ایک پارٹی اکیلے حکومت نہیں بنا پائے گی اور مخلوط حکومت بنے گی۔اس سارے الیکشن میں سب سے دلچسپ صورتحال یہ رہی کہ بہت سے مسلم لیگ کے معروف چہرے شکست سے دو چار ہوئے۔مانسہرہ سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف کو شکست ہوئی جب کہ لاہور کے حلقے سے ڈاکٹر یاسمین راشد جو کہ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آذاد امیدوار تھی٫ کے مقابلے میں میاں نواز شریف الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔فیصل آباد سے رانا ثناءاللہ ڈاکٹر نثار جٹ سے الیکشن ہار گئے٫لاہور سے خواجہ سعد رفیق پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار لطیف کھوسہ سے الیکشن ہارے۔گوجرانوالہ سے سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان ایک نوجوان منیب فاروق گجر سے شکست کھا بیٹھے۔وزیر آباد سے مسلم لیگ کے امیدوار ڈاکٹر نثار چیمہ کو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدوار محمد احمد چھٹہ نے شکست سے دو چار کیا۔ ۔لاہور سے شیخ روحیل اصغر کو شکست ہوئی ۔اب آتے ہیں باقی” برجوں “کی طرف جہانگیرخان ترین لودھراں اور ملتان دونوں نشستوں سے ہارے٫چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ نون کے قمر الاسلام سے ہار گئے ۔تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان نے استحکام پاکستان پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر شکست ہوئی٫جھنگ کی تینوں نشتیں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران نے جیتی۔ملتان سے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیٹا زین قریشی آذاد حیثیت سے تحریک انصاف کی حمایت سے الیکشن جیت گیا جب کہ بیٹی مہربانو قریشی جو کہ آذاد حیثیت سے تحریک انصاف کی حمایت سے الیکشن لڑ رہی تھی کو ٫ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ملتان سے ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے تینوں بیٹے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ڈیرہ غازی خان سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار زرتاج گل الیکشن جیت گئی۔مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر سے اپنی آبائی نشست تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدوار علی امین گنڈاپور سے ہار گئے جب کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔کے -پی -کے نوشہرہ سے پرویز خٹک خاندان سمیت شکست سے دو چار ہوئے۔اے این پی کے سربراہ بھی چارسدہ سے اپنی نشست نہ بچا سکے۔تحریک لبیک کے نوجوان امیر مولانا سعد رضوی بھی تحریک انصاف کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار ایمان طاہر سے شکست کھا گئے۔گجرات سے مسلم لیگ ق کےسالک حسین جیت گئے جب کہ مسلم لیگ نون کے مضبوط امیدوار عابد رضا کوٹلہ کو شکست ہوئی ۔کراچی اور حیدرآباد سے ایم کیو ایم 17 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ۔مصطفیٰ کمال ٫ڈاکٹر فاروق ستار ٫خالد مقبول صدیقی اور سید امین الحق قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔سندھ سے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ بیشتر امیدوار کامیاب ہوئے ۔سب سے حیرت زدہ رزلٹ مظفر گڑھ کا رہا جہاں سے شہر بانو بخآری المعروف ( دادا کی پوتی ) جو کہ مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی تھی وہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدوار سردار معظم خان جتوئی سے الیکشن ہار گئی ۔کے- پی- کے کی صوبائی اسمبلی کی 90 نشستوں پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آذاد امیدواروں نے فتح حاصل کی۔پنجاب اسمبلی میں اب تک کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ نون کے حصے میں 137پیپلزپارٹی کو 10 مسلم لیگ ق کو 8 اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 115 آذاد ارکان منتخب ہوئے ہیں۔جب کہ بلوچستان میں کھچڑی پکی ہوئی ہے۔بہت سے جیتے ہوئے امیدواروں کے مخالف امید واروں نے عدالتوں سے رجوع کر لیا جن امیدواروں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا گیا ہے ان میں سر فہرست میاں نواز شریف ہیں جنہوں نے لاہور کے قومی اسمبلی حلقے 130سے جیت حاصل کی ہے مگر یہاں سے ان کی مخالف امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس حلقے کے نتیجہ کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔سیالکوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقے 71سے خواجہ آصف کی جیت کو ان کی مخالف امیدوار ریحانہ ڈار نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے ۔مریم نواز اور عطا تارڑ کی جیت کو بھی عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔لاہور سے ہی عون چوہدری کے مد مقابل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے عون چوہدری کی جیت کو عدالت میں چیلنج کیا ہے ۔اسلام آباد کی تینوں نشتوں کے نتائج کو چیلنج کیا گیا ہے۔اب عدالتوں سے کیا فیصلے آتے ہیں یہ تو آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔موجودہ نتائج کے مطابق کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی اور نہ ہی کوئی اکیلی پارٹی حکومت بنا سکتی ہے یہ بات تو طے ہے کہ جو بھی حکومت بنے گی وہ مخلوط ہوگی مگر ان نتائج سے میدان سیاست کے بڑے بڑے برج الٹ گئے ہیں۔
پروفیسر قیصر عباس!
urdu news, column in urdu , general election 2024