مرگ بر سرمچار! پروفیسر قیصر عباس
مرگ بر سرمچار! پروفیسر قیصر عباس
پاکستان کا محل وقوع کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان کے مشرق میں بھارت ٫شمال میں چین ٫ مغرب میں افغانستان ٫جنوب مغرب میں ایران اور جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے۔ہندوستان سے ہم علیحدہ ہوئے اور کانگریسی قیادت یہ خیال کرتی رہی کہ یہ نیا ملک مشکل سے ہی چار چھ مہینے چلے گا اور پھر سے ہم ایک ہو جائیں گے مگر کانگریسی رہنماؤں کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اس لئے ہندوستان سے ہمارے تعلقات کشیدہ ہی رہے بلکہ تین جنگوں کے علاؤہ کارگل وار بھی ہندوستان سے ہوچکی ہے۔اس کے بعد ہم شمال کی طرف آئیں تو چین نے “جیو اور جینے دو” کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان سے اچھے تعلقات ہی چاہے ہیں اس کی بنیادی وجہ شاہراہِ ریشم بھی ہے جس کی وجہ سے چین گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اس لئے چین کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چین کاقومی مفاد ہے چین کامفاد بھی مغربی پاکستان سے ہی ہے کیونکہ جب بھارت نےمشرقی پاکستان پر جنگ مسلط کی تھی تو اس کے بچاؤ کے لئےچین میدان عمل میں نہیں آیا تھا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ چین کو مغربی پاکستان سے مفاد تھا نا کہ مشرقی پاکستان سے۔اب بات کرے اگلے ہمسائے یعنی افغانستان کی تو پاکستان نے جب اقوام متحدہ میں رکنیت کے لئے درخواست دی تو اس اسلامی ملک نے اس کی مخالفت کی کیونکہ افغانستان کا موقف یہ ہے کہ فاٹا اور دیگر قبائلی علاقے افغانستان کا حصہ ہیں حتیٰ کہ افغانستان کی حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔اب ہماری صورتحال دیکھیں ایک طرف انڈیا ہے جس کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے۔دوسری طرف چین ہے جس کے مفادات ہمارے ساتھ منسلک ہیں کیونکہ بین الاقوامی تعلقات کے مطابق دوستیاں مفادات کی وجہ سے ہوتی ہیں اور دشمنیاں مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔افغانستان کے ساتھ کبھی ہمارے موافق حکومت آجاتی ہے اور کبھی ہمارے مخالف۔افغانستان چونکہ ” Land lock Country”ہے ۔یہ ایسا ملک ہوتا ہے جس کا اپنا سمندر نہیں ہوتا اور اسے بحری تجارت کے لئے دوسرے ملک یا ممالک سے راہداری لینا پڑتی ہے ۔افغانستان بھی پاکستانی سمندر حدود کو ہی استعمال کرتا ہے۔ایک اور اہم ہمسایہ ملک ایران ہے جس نے پاکستان کو بطور آزاد ملک سب سے پہلے تسلیم کیا۔ہمارے ابتداء سے ہی اس ملک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں ۔حتی کہ ہمارے کچھ حکمرانوں کی بیویاں بھی ایرانی نژاد رہی ہیں جن میں آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر سکندر مرزا اور 1973کے آئین کے نافذ ہونے کے بعد پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں ۔یاد رہے سکندر مرزا نے ناہید نامی خاتون سے شادی کی تھی جن کا تعلق ایران سے تھا جب کہ ذوالفقار علی بھٹو نے نصرت اصفہانی سے ٫ان کا تعلق بھی ایران سے تھے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ایک وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سسرال ایران میں تھے اور ایک وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے ننھیال بھی ایران میں تھے۔پاکستان کی انڈیا سے جو جنگیں ہوچکی ہیں یعنی 1965ءاور 1971ء کی جنگ اس میں بھی ایران نے پاکستان کی سفارتی حمایت کی اور بہت عرصے تک ایران کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی حمایت کرتا رہا ہے۔لیکن پھر آہستہ آہستہ پاک ایران تعلقات میں سرد مہری آتی گئی ۔اس کی وجہ کچھ بڑی طاقتوں کا کردار ہے اورکچھ ہماری کمزوریاں ہیں۔ہم ایران سے تعلقات کو فروغ دیکر کر بہت سے فوائد حاصل کر سکتے تھے خاص کر اپنے توانائی کے شعبے کے مسائل حل کر سکتے تھے ۔چاہئے تو یہ تھا کہ ہمارے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں ایک توازن رہتا لیکن اک خاص ملک کے دباؤ کی وجہ سے ہمارا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہوگیا۔ایران نے بھی بین الاقوامی برادری میں اپنے نئے دوست تلاش کر لئے بدقسمتی سے ایران نے جس دوست “بھارت “کو چنا اس کے تعلقات پاکستان کے ساتھ اچھے نہیں رہے۔حتی کہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر کے مقابلے میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ۔اور سارے معاملے میں ایران کے نئے دوست اور پاکستان کے پرانے دشمن ملک کا بڑا کردار ہے۔مشہور زمانہ بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو جس پر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا جرم ثابت ہو چکا ہے اور اسے سزا بھی ہو چکی ہے ٫ایرانی پاسپورٹ پر ہی سفر کرتا رہا ہے۔اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ چند دن پہلے ایران نے اپنے تین ہمسائے ممالک شام ٫عراق اور پاکستان پر میزائل داغے جس کی وجہ سے تینوں ممالک میں جانی نقصان ہوا ۔شام نے اس پر احتجاج نہیں کیا کیونکہ ایران نے یہ میزائل اس علاقے پر مارے ہیں جہاں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی پناہ گاہیں ہیں ۔عراق نے اگرچہ احتجاج کیا مگر عراقی حکومت کی پوزیشن ایران کے مقابلے میں اتنی کمزور ہے کہ ایران اس احتجاج کو کسی خاطر میں نہیں لایا۔جب کہ پاکستان ان تین ممالک میں وہ واحد ملک ہے جس نے ایرانی میزائل حملوں پر نہ صرف سفارتی سطح پر احتجاج کیا بلکہ اس حملے کا جواب میزائل حملوں سے ہی دیا ہے۔ایران نے پاکستان پر جو میزائل گرائے وہ صوبہ بلوچستان میں گرائے گئے ہیں۔بلوچستان دراصل تین ممالک میں تقسیم ہے آدھا بلوچستان پاکستان جب کہ آدھا ایران میں اور بلوچستان کا کچھ حصہ افغانستان میں بھی ہے ۔اب دونوں ممالک کےبلوچ علاقوں کی یہ صورت حال ہےکہ ایرانی بلوچستان میں ایرانی بلوچ ایرانی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں اور پاکستان کے بلوچستان میں ریاست پاکستان سے ناراض بلوچ پاکستانی ریاست کے خلاف بندوق اٹھائے ہوئے ہیں ۔اس معاملے میں ایران کا موقف یہ ہے کہ ایرانی باغی بلوچوں کی پناہ گاہیں پاکستانی بلوچستان میں ہیں جن کی پشت پناہی دہشت گرد تنظیم “جیش العدل” کر رہی ہے جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ پاکستان بلوچستان کے باغی بلوچوں کی امداد ایرانی بلوچستان سے ہورہی ہے خصوصاً بی -ایل -اے جیسی پاکستان دشمن تنظیموں کا مضبوط نیٹ ورک ایرانی بلوچستان میں موجود ہے۔چند روز قبل ایران میں گیارہ پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا گیا تھا جس کی زمہ داری “جیش العدل” نے قبول کی تھی اور اس کے بعد جنرل قاسم سلیمانی کی برسی پر خودکش حملے ہوئے تھے جس میں ڈیڑھ سو سے زائد ایرانی شہری جان سے گئے اور بہت بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے ایرانی خفیہ ایجنسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو ان تینوں ممالک یعنی شام ٫عراق اور پاکستان سے آپریٹ کیا گیا ہے۔اس لئے ان تینوں ممالک پر جو حملے کئے گئے ہیں وہ اصل میں ان دہشت گردوں پر حملے ہیں جنہوں نے ایران کے شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔اور ان حملوں میں وہ ایرانی باغی مارے گئے ہیں جن کا تعلق ایران سے ہے ۔ان حملوں میں کوئی شامی ٫عراقی یا پاکستانی نہیں مارا گیا۔پاکستانی ارباب اختیار نے پہلے تو اس حملے پر احتجاج کیا اور اپنا سفیر ایران سے واپس بلوالیا۔اس کے بعد پاکستان نے بھی ان ایرانی علاقوں میں میزائل مارے جہاں پر ان کے مطابق بی -ایل- اے جیسی پاکستان دشمن تنظیموں کے دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے ۔سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے بھی ایرانی حکام کی طرح یہی دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حملے میں کوئی ایرانی شہری نہیں مارا گیا بلکہ پاکستانی باغی ہی مارے گئے ہیں اور پاکستان نے اس حملے کو” مرگ بر سرمچار”کا نام دیا ہے ۔دراصل “سرمچار” بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب” سرفروش یا جانثار ” ہے ۔ریاست پاکستان کے خلاف لڑنے والے بلوچ نوجوانوں کو “سرمچار” بولا جاتا ہے جب کہ” مرگ بر” فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “مردہ باد یا موت “۔اس لئے پاکستان نے اس کاروائی کا نام” مرگ بر سرمچار”رکھا ہے یعنی “سرفروشوں کی موت “.تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک کے حکام بالا نے اس سارے معاملے کو گفت شنید کے ساتھ حل کرنے پر زور دیا ہے ۔اس وقت جوش سے زیادہ ہوش سے کام لینا چاہیے ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمسائے کبھی تبدیل نہیں ہوتے اس لئے ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دہشت گرد چاہئے ایران میں کارروائیاں کریں یا پاکستان میں وہ دہشت گرد ہیں دونوں ممالک اپنی سر زمین ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے استعمال نہ ہونے دیں۔ایسی دہشتگرد کاروائیوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ ان کے سدباب کے لئے مشترکہ میکانزم بنایا جائے جس میں دونوں ممالک کی رضامندی شامل ہو جب یہ میکانزم بن جائے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے ۔
پروفیسر قیصر عباس!
urdu-news-column in urdu
.
Sir your columns are best source of representing historical and current aspects. Pakistan should also think about good relations with neighbouring countries to improve economic conditions of Pakistan and y
نوازش جناب