urdu news, Artificial Products, Changing Habits, and Social Decline 0

مصنوعی چیزیں، بچوں سے بڑوں تک بگڑتی عادات اور معاشرتی انحطاط، یاسر دانیال صابری
یہ دور تیز رفتاری کا ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ جتنا تیز ہمارا وقت، اتنا ہی سست ہمارا شعور ہو گیا ہے۔ آج ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ترقی کا معیار اسمارٹ فون، چمکتی گاڑی، یا مہنگی بوتل والی کول ڈرنک سے ناپا جاتا ہے، مگر دلوں کا سکون، کردار کی مضبوطی اور ذہن کی پاکیزگی کہیں کھو چکی ہے۔ خاص طور پر بچوں کی تربیت کا حال یہ ہے کہ اب وہ باہر کھیلنے کے بجائے اسکرین پر انگلیاں چلانے میں خوشی ڈھونڈتے ہیں۔ نائٹ آور سکرین، نائٹ آور سٹیٹس، اور مصنوعی تفریح نے بچپن کی معصومیت کو نگل لیا ہے۔ہم والدین خود اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ بچوں کی ضد پر ہر نئی چیز لا کر دینا ہم اپنی محبت سمجھتے ہیں، مگر دراصل ہم انہیں زندگی کے حقیقی ذائقے سے محروم کر رہے ہیں۔ پہلے بچے ماں کی آواز سن کر سو جاتے تھے، اب یوٹیوب کی لوریوں پر نیند آتی ہے۔ پہلے کھیل کود سے جسمانی نشوونما ہوتی تھی، اب گیمز نے جسم کو جامد اور دماغ کو بوجھل بنا دیا ہے۔ مصنوعی چاکلیٹس، فاسٹ فوڈ اور رنگین کول ڈرنکس نے ان کے ذوق اور بھوک کو مٹا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے بچے جلد تھک جاتے ہیں، جلد اکتا جاتے ہیں اور فطری خوشی کا احساس کھو بیٹھے ہیں۔
اگر معاشرتی تناظر میں دیکھیں تو یہ مسئلہ صرف گھروں تک محدود نہیں۔ پاکستان بھر، خصوصاً گلگت بلتستان جیسے خوبصورت اور پرامن خطوں میں بھی یہ رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بازاروں میں جائیں تو ہر چیز چمکدار پیکنگ میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے، مگر اس کے اندر زہر بھرا ہوتا ہے۔ دو نمبر چیزوں کا کاروبار عروج پر ہے۔ نینوَر بازار یا گلگت شہر کے کسی بھی کونے میں جائیں، جعلی بسکٹ، چپس، ٹافیاں، کول ڈرنکس، یہاں تک کہ دودھ اور پانی تک غیر معیاری بیچے جا رہے ہیں۔ لوگ یہ سمجھ کر خریدتے ہیں کہ سستا ہے، مگر یہ سستی ان کی صحت، ان کے بچوں کی زندگی اور پورے معاشرے کے اخلاقی معیار پر بھاری پڑ رہی ہے۔
جعلی دواؤں کی بات کی جائے تو یہ سب سے بڑا جرم ہے۔ گلگت بلتستان میں کئی کلینکس ایسے ہیں جہاں غیر رجسٹرڈ ڈاکٹرز غیر معیاری دوائیاں دیتے ہیں۔ عوام لاعلمی میں انہیں علاج سمجھ کر استعمال کرتے ہیں، مگر وہ اندر سے انسان کو بیمار کرتے رہتے ہیں۔ ایک بیماری ختم نہیں ہوتی کہ دوسری پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح “منرل واٹر” کے نام پر جو بوتلیں فروخت ہو رہی ہیں، ان میں اکثر عام نلکے کا پانی بھرا ہوتا ہے۔ یہ سب کاروبار لالچ، غفلت اور نظام کی کمزوری کی علامت ہیں۔یہی حال خوراک، تعلیم، اور معاشرتی اقدار کا بھی ہے۔ جہاں کبھی استاد کو روحانی باپ سمجھا جاتا تھا، وہاں اب وہ محض ایک ملازم بن کر رہ گیا ہے۔ طلبہ کا مقصد علم حاصل کرنا نہیں، صرف نمبر لینا رہ گیا ہے۔ ماں باپ کا مقصد تربیت نہیں، صرف دکھاوا رہ گیا ہے۔ ہر کوئی چمک کی دوڑ میں ہے، مگر سچائی، اخلاق اور اخلاص کی روشنی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔
اسی مصنوعی زندگی نے انسانی رشتوں کو بھی زہر آلود کر دیا ہے۔ اب ملاقاتیں کم، چیٹ زیادہ ہو گئی ہیں۔ محبت اظہار سے زیادہ اسٹیٹس پر منحصر ہے۔ دلوں میں خلوص نہیں، الفاظ میں دکھاوا ہے۔ رشتے اب جذبات نہیں، مفادات سے چلتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، آج ہم “ری ایکشن” دے کر سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔حکومتوں کی غفلت بھی اس بگاڑ میں حصہ ڈال رہی ہے۔ فوڈ اتھارٹی ہو یا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، زیادہ تر ادارے کاغذوں تک محدود ہیں۔ بازاروں کی نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں قانون کمزور ہو، وہاں لالچ طاقت بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان جیسے خطے میں، جہاں پانی اور ہوا خود ایک نعمت ہیں، وہاں بھی اب صاف خوراک، خالص دوا اور سادہ زندگی خواب بنتی جا رہی ہے۔ تمام مسائل دراصل ایک ہی جڑ سے پھوٹ رہے ہیں۔مصنوعی زندگی کی غلامی۔
ہم نے سہولت کے نام پر خود کو مشین بنا لیا ہے۔ فطرت سے جتنا دور ہوئے، بیماریوں، بے سکونی اور اخلاقی کمزوریوں کے اتنے قریب آ گئے۔ یہ ضروری ہے ہم خود سے آغاز کریں۔
گھروں میں بچوں کے لیے رات کو سکرین بند کرنے کا وقت مقرر کیا جائے۔ انہیں موبائل کے بجائے کتاب، گیمز کے بجائے کھیل، اور چاکلیٹ کے بجائے پھل کی طرف راغب کیا جائے۔ والدین خود مثال بنیں — اگر ماں باپ خود سادہ زندگی گزاریں تو بچے بھی سادگی سے محبت کرنا سیکھیں گے۔
گلگت بلتستان جیسے خطوں میں حکومت کو خاص طور پر فوڈ انسپیکشن، دوا کے معیار، اور پانی کی جانچ کے نظام کو فعال بنانا چاہیے۔ جعلی مصنوعات بنانے والوں کو سخت سزائیں ملنی چاہییں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔ہ ایک نازک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک راستہ مصنوعی چمک، سکرینوں، اور جعلی لذتوں کی طرف جاتا ہے ۔جو جسم کو کمزور، ذہن کو منتشر اور روح کو مردہ کر دیتا ہے۔ دوسرا راستہ فطرت، سچائی اور سادگی کی طرف ہے — جو زندگی کو سکون، صحت اور معنویت دیتا ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
اگر ہم نے آج اپنے بچوں، اپنے معاشرے، اور اپنی فطرت کو واپس نہ پایا، تو آنے والے وقت میں ہمارا وجود صرف سوشل میڈیا پر باقی رہے گا، حقیقت میں نہیں۔
وسلام اللہ پاک ہم سب کو خوش رکھے باقی کل کی آریٹکل میں انشاللہ زندگی رہی تو۔
urdu news, Artificial Products, Changing Habits, and Social Decline

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!
50% LikesVS
50% Dislikes

مصنوعی چیزیں، بچوں سے بڑوں تک بگڑتی عادات اور معاشرتی انحطاط، یاسر دانیال صابری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں