اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق اہم نکات پر وضاحت طلب کر لی
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق اہم نکات پر وضاحت طلب کر لی
رپورٹ، 5 سی این نیوز
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران واضح کیا ہے کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
اہم نکات:
– جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا، آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے۔
– وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل ممکن ہے۔
– جسٹس مسرت ہلالی نے سویلینز کے ٹرائل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اختیارات کو وسیع کر کے سویلینز کو ٹرائل میں شامل کیا جا رہا ہے۔
سماعت کے دوران سوالات:
– جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کوئی شہری فوج میں شامل ہو کر اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہو جاتا ہے؟
– جسٹس محمد علی مظہر نے وضاحت کی کہ سویلینز کا ٹرائل صرف آرمی ایکٹ میں درج جرائم کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
سماعت کی مزید تفصیلات:
کیس کی سماعت کے دوران حسان نیازی کے والد حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ ملزمان کو سزائیں دینے کے بعد جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے، مگر انہیں دیگر قیدیوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جیلوں میں ملزمان کے رویے کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔
آئندہ سماعت:
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، اور عدالت نے واضح کیا کہ آئندہ سماعت میں بھی فوجی عدالتوں کے کیس کے علاوہ کوئی مقدمہ نہیں سنا جائے گا۔
URDU NEWS
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چیمبر کے سامنے پاکستانی قومی پرچم نصب، پاکستان نے 15 رکنی ادارے کے غیر مستقل رکن (2025-26) کے طور پر اپنی آٹھویں مدت کا آغاز ہو گیا