سرفہ رنگا تھنگ سے متعلق کچھ حقائق، بلتستان کے علماء و دانش مند حضرات کو کوئی مصالحتی راستہ نکالنا چاہیے۔

سرفہ رنگا تھنگ سے متعلق کچھ حقائق، بلتستان کے علماء و دانش مند حضرات کو کوئی مصالحتی راستہ نکالنا چاہیے
رپورٹ 5 سی این شگر
سرفہ رنگا تھنگ سے متعلق کچھ حقائق، بلتستان کے علماء و دانش مند حضرات کو کوئی مصالحتی راستہ نکالا جائے ۔ آج کل سرفہ رنگا اور مہاجرین کے مابین کیس کے فیصلے کو لے کر سوشل میڈیا گرم ہے اس سے متعلق چند حقائق جن کو تسلیم کرے تو شاید یہ جھگڑا ختم ہو جائے کیونکہ جھگڑے ہمیشہ حقائق تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں حقائق یہ ہیں:
1. یہ میدان موضع سرفہ رنگا سمیت مواضعات مرہ پی، کوتھنگ بالا، پائین، برقچھن، گیانپی روپی، توت کھور خورد اور نر کی بندوبستی چراگاہ ہے یہ ان مواضعات کی قدیم الایام سے قبضے اور تصرف میں ہے۔ جگہ جگہ ان کے بکر کوٹھے قائم ہیں ڈوگرہ دور میں یہاں کے عوام نے اس کا ٹیکس ادا کیا ہے یہاں کے آسامیاں کے علاوہ کوئی بھی اس میں نہ مویشی چرا سکتے ہیں نہ بکرا کوٹھہ بنا سکتے ہیں۔ریکارڈ مال میں اس کا محل وقوع و حدود اربعہ و دیگر باتیں درج ہیں
2. کسی بھی چراگاہ سے شرعاً و قانوناً کسی کو الاٹمنٹ، خرید و فروخت یا کوئی دیگر لین دین نہیں ہو سکتی جب تک کہ تمام اسامیان کا مشترکہ فیصلہ نہ ہو۔
3. اس میں سے ایک ہزار کنال سے زائد رقبہ حکومت نے یہاں کے اسامیان/مالکان کی رضامندی کے بغیر مہاجرین 1971 اور 1948 کو الاٹ کرکے دی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الاٹمنٹ سے پہلے حقوق رکھنے والوں سے اجازت لی جاتی۔ دوسری بات جو مہاجر جس ضلع میں قیام پذیر ہے اس کو اسی ضلع میں پلاٹ دیتا اب پورے جی بی کے علاوہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں رہنے والوں کو بھی ان مواضعات کی زمین الاٹ کی ہے۔ دیگر یہ کہ مہاجرین کو اتنا رقبہ الاٹ کرتا جتنا یہاں کے ایک اسامی کے حصے میں آتے اب ایک مہاجر کے حصے میں 22 کنال جبکہ یہاں کے حقیقی مالکان کے لئے فی اسامی پانچ کنال بھی نہیں بچا ہے۔

4. یہ بھی حقیقت ہے کہ مہاجرین نے جنگ میں اپنی تمام تر جائیداد، گھربار چھوڑ کر ہمیں اپنا مسلمان بھائی سمجھ کر ہماری طرف ہجرت کئے ہیں ان کی بحالی اور مدد ہم پر بحیثیت مسلمان شرعی و اخلاقی فرض ہے. اب چونکہ الاٹمنٹ کردی ہے اور الاٹی حضرات نے اس میں محنت اور اخراجات کئے ہیں لہذا ان کا بھی کسی حد تک حق بنتا ہے انصاران مدینہ کی نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی مدد لازمی کرنا چاہئے اور ان کو مکمل بے دخل نہیں کرنا چاہئے۔
لہذا بلتستان کے علماء و دانش مند حضرات کو کوئی مصالحتی راستہ نکال لینا چاہئے۔ اور ہر ایک فریق کو مصالحتی فیصلہ کو دل سے قبول کرنا چاہئے۔ تاکہ وقت اور پیسے کے ضیاع سے بچ سکے اور جلد سے جلد اس کو آباد کرکے تمام تر سازشوں کو ناکام بنا سکے۔
urdu-news-274

گلگت ، ہنزہ میں منعقد ہونے والے میرتھن ریس میں حجاب ضرور دیا جائے کلثوم ایلیاء شگری ۔ بنت جوا فاونڈیشن

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں