گلگت بلتستان پاکستان کا جھومر اور میرا گھر ہے۔ یاسر دانیال صابری

گلگت بلتستان پاکستان کا جھومر اور میرا گھر ہے۔ یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان اپنی تاریخی کلچر کی وجہ سے ہی دنیا میں اپنا منفرد پہچان رکھتا ہے ۔گلگت بلتستان کی شہرت دیوسائی نیشنل پارک، انٹرنیشنل ہوائی جہاز میدان سکردو اور کے ٹو چوٹی کی عالمی شہرت دنیا میں ایک مقام رکھتی ہے۔گلگت بلتستان سیاحتی لحاظ سے ایک اہم انڈسٹری ہے۔جس سے سالانہ کئی ملین روپے نیشنل بینک آف پاکستان میں جمع ہوتے ہیں ۔دنیا بھر سے لاکھوں سیاح گرمیوں میں جی بی کا رخ کرتے ہیں جہاں تک کچھ دن سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی وومن سیاح اس ونٹر کے موسم میں سکردو سدپارہ جھیل کو انجوئی کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ونٹر کے موسم میں بھی گلگت بلتستان آئے پاکستان کا یہ علاقہ بہت ہی سنہرے منظر قارئین کو پیش کر رہا ہے ۔گلگت بلتستان دیامر پاشا ڈیم کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔کہتے ہیں کہ جب دیامر پاشا ڈیم تیار ہو گا تو گلگت بلتستان میں برساتی بارش کا موجب بنے گا ۔گلگت بلتستان کے خشک صحرا اور پہاڈ مکمل سبز کارپٹ کی روپ میں پوشاخ کرینگے۔دیہات علاقوں میں کوئی کاشت نہیں ہو گی۔ہر سال ڈیم کی وجہ سے مسلسل بارشیں ہو گی۔لباس انسان کی شناخت میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ خطے کے روایتی لباس مقامی ثقافت، جغرافیہ اور موسم سے متاثر ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے مرد ممبران مختلف قسم کی اونی ٹوپیاں پہنتے ہیں جسے وہ اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
مرد عام طور پر پہنتے ہیں اونی ٹوپی شلوار قمیض لمبی یا چھوٹی بازو والا اونی لباس خواتین کے لباس کا سب سے خوبصورت حصہ روایتی ٹوپی ہے۔ مختلف قسم کے ٹوپیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور ٹوپی خوبصورت کڑھائی والی ایراگھی ٹوپی ہے جس میں زیور کے روایتی ٹکڑے کو سلسیلا کہتے ہیں۔ بہت سی دوسری قسم کی ٹوپیاں مختلف علاقوں میں استعمال ہوتی ہیں۔گلگت بلتستان میں بھی ٹوپیاں پہننے کا رواج عام ہے، خاص کر دلہن کے میک اپ جیسے تقریبات کے دوران۔ خواتین عام طور پر پہنتی ہیں:ایراگھی ٹوپی ڈھیلا شلوار قمیض
گلگت بلتستان کی روایتی ٹوپی نے گلگت بلتستان کے لوگوں کی شناخت کو واضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بڑی مقامی زبانوں میں ٹوپی کے مختلف نام ہیں۔ شینا اور کھوار زبانوں میں ٹوپی کو کھوئی کہتے ہیں۔ بروشسکی، فارٹسن یا فارسن میں؛ اور وخی میں، سیکید۔ بلتستان میں ٹوپی کا ڈیزائن قدرے مختلف ہے اور اسے بلتی میں ناٹنگ کہتے ہیں۔ گلگت بلتستان مردوں کی روایتی ٹوپی ایک نرم، گول چوٹی والی ہوتی ہے، جو عام طور پر اون سے بنی ہوتی ہے اور مختلف قسم کے رنگوں میں پائی جاتی ہے: بھورا، سیاہ، سرمئی، یا ہاتھی دانت کے رنگ میں۔ اس کو لگانے اور پہننے سے پہلے، روایتی ٹوپی گول، چپٹے نیچے والے تھیلے سے مشابہت رکھتی ہے۔ پہننے والا اطراف کو تقریباً اوپر کی طرف لپیٹتا ہے، جس سے ایک موٹا بینڈ بنتا ہے، جو پھر بیریٹ یا ٹوپی کی طرح سر پر ٹک جاتا ہے۔
روایتی ٹوپی ایک نرم گول ٹاپ والی اونی ٹوپی ہے۔ مقامی کاریگروں کے ذریعہ تیار کردہ، یہ مختلف رنگوں میں دستیاب ہے۔ وائٹ کیپس خطے میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور انہیں رسمی مقامی لباس کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بہت سے علاقوں میں، خاص طور پر پرانی نسل کے لوگ، اب بھی روایتی ٹوپی ہر وقت فخر کے ساتھ پہنتے ہیں۔ وہ اسے عزت کی نشانی سمجھتے ہیں۔ ٹوپی کی سب سے نمایاں خصوصیت بطخ کا پلم ہے اور پنکھ ٹوپی کے سامنے یا طرف پھنس جاتا ہے۔ یہ ٹوپی کو ایک بہت ہی خوبصورت شکل دیتا ہے۔ اسے رسمی لباس کی ٹوپی کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور اسے دولہا کے لباس میں استعمال کیا جاتا ہے۔گلگت بلتستان کو مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ وراثت میں ملے ہیں اور ان کی ثقافت، رسم و رواج اور روایات کا تنوع ہے۔ گلگت بلتستان، پاکستان کا ثقافتی ورثہ مقامی روایات، موسیقی اور مقامی لباس میں خود کو ظاہر کرتا ہے۔
ایک گلگتی آدمی روایتی ٹوپی پہنے ہوئے ہے جس کے پروں کو “شاتی” کہا جاتا ہے۔کوہ ہندوکش کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کا صدر مقام اور سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز دیگر زبانیہ ہے
گلگت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے۔ دریائے گلگت اس کے پاس سے گزرتا ہے۔گلگت ایجنسی کے مشرق میں کارگل شمال میں چین شمال مغرب میں افغانستان مغرب میں چترال اور جنوب مشرق میں بلتستان کا علا قہ ہے۔دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم اس کے قریب ہی ہے۔ یہاں کی زبان شینا ہے لیکن اردو عام سمجھی جاتی ہے۔ چین سے تجارت کا مرکز ہے۔ کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی اور شمال کی دوسری بلند چوٹیاں سر کرنے والے یہاں آتے ہیں۔يهاں كى خاص بات بلندو بالاپہاڑ اور یہاں کے بہتے ہوئے دریا اور سبزدار ہیں۔گلگت شہر میں تین سے زیادہ مسالک کے لوگ آباد ہیں جن میں سنی ،شیعہ اسماعیلی مسلک اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ شامل ہیں گلگت شہر کے آس پاس سنی مسلک کی آبادی زیادہ ہے شہر گلگت صوبہ گلگت بلستان کا دار الحکومت ہے یہ علاقہ . یکم نومبر ١٩٤٧ کو ڈوگرا راج سے آذادی حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان، پاکستان سے ملحق ہوا تاہم قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کی وجہ سے اور پاکستان کے انتظامی مشکلات کی وجہ سے تا دم تحریر پاکستان کے قومی اسمبلی میں نمائندگی موجود نہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام کثیر تعداد میں کھیتی باڈی سے منسلک ہیں ۔گلگت بلتستان کے لوگ اپنے تہواروں کو مخصوص مقررہ دن میں منانے پر یقین رکھتے ہیں۔گلگت بلتستان میں لوگ بہت محنتی اور جفاکش ہے ۔اپنے آباواجدہ سے اقدار اور ثقافتی ورثہ اپنے سینوں اور ذہنوں میں محفوظ کرتے ہوئے نسل در نسل کو منتقل کرتے آ رہے ہیں ۔گلگت بلتستان کئی مسائل کا شکار ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش کچھ بنیادی و ضروری اور کثیرالاہمیت کے حامل مسائل بالترتیب یہ ہیں:
اول روز بروز اشیاء خوردونوش گندم، چاول، آٹا، گھی، دال، سبزی ۔۔۔۔۔۔ کی بڑھتی ہوئی کمر شکن قیمت کو حد اعتدال پر لانے کی جانب حکمران وقت توجہ کریں۔ عوام کی حالت پر مہنگائی نے بہت اثر کیا، فاقوں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے غریب لوگوں کا گزارا مشکل ہوگیا ہے۔ اے سی صاحب کنٹرول پرائس لسٹ چیک کیا کریں۔

دوم) بجلی کی ناقابل برداشت لوڈشیڈنگ کو ختم کرکے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بارے میں سوچیں۔یا شمشی توانائی کے پلانٹس بنائے۔
سوم) حسب ضرورت گندم کی ترسیل کا نہ ہونا بھی عوامی بنیادی مشکل ہے، چونکہ گلگت بلتستان کے عوام اسی گندم سے ہی اپنے اور اپنے بچوں کی غذا پوری کرتے ہیں۔ موجودہ عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ اس مشکل کو ہمیشہ کے لئے برطرف کرنے کے بارے میں ٹھوس اقدامات کریں۔محکمہ سول سپلائی میں کمپوٹرائز نظام کی بحائی کریں اور گندم میلوں کو نہ دے ۔

چہارم) صحت کے مراکز میں لازمی مقدار میں سہولیات، ادویات، پڑھے لکھے ماہر تجربہ کار ڈاکٹروں کا فقدان ہے، جس کی جانب ہمارے حکمرانوں کو بھرپور توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ اسپتالوں میں مینڈی سے زیادہ رش بنا ہے ۔کھیل کے میدان آباد کریں اسپتال اپنے آپ ویران ونگے۔۔
پنجم) صفائی و نظافت کے انتظام کا موجود نہ ہونا بھی گلگت بلتستان کے عوام کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے، بہت سارے امراض کا سبب گندگی اور بہداشت کی رعائت سے منہ موڑنا ہے، اس کی جانب بھی توجہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔دنیور میں صفائی کرنے والی گاڑیوں کو ریگولز گلیوں میں چلایا جائے
ششم) جوانوں کی بے روزگاری کا تسلسل سے بڑھتا ہوا رجحان بھی گلگت بلتستان کے عوام کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ تمام شعبوں میں ملازمتیں دلانے یا کسی اچھی پوسٹ پر کام کرنے کے لئے جگہ دینے کا معیار رشوت، سفارش اور دوستی کا بن جانا بھی خطہ بے آیین کی بنیادی مشکلات میں سرفہرست ہے۔ قابلیت و صلاحیت کا معیار یکسر طور پر مدفون ہوکر ملاک رشوت قرار پا جانے سے گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص جوان سخت پریشان ہیں، حکمران وقت ضرور اس جانب توجہ کریں۔وسلام ۔تحریر یاسر دانیال صابری
urdu ncolumn, Gilgit-Baltistan is the chandelier of Pakistan and my home

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں