دامن کو ذرا دیکھ ، پروفیسر قیصر عباس
دامن کو ذرا دیکھ ، پروفیسر قیصر عباس
سنیٹر اور سینئر رہنما مسلم لیگ نون محترم عرفان صدیقی صاحب نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں فرمایا ہے”میاں نواز شریف نے ہمیشہ اداروں کے ساتھ ٹکراؤ سے گریز کیا ہے٫نواز شریف نے ماضی میں ڈیل کی ہوتی تو جلاوطن نہ ہوتے٫اقتدار میں رہتے۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ”جنرل راحیل شریف نہیں چاہتے تھے کہ جنرل پرویز مشرف کا ٹرائل ہو٫جنرل پرویز مشرف کا جب ٹرائل شروع ہوا تو جنرل راحیل شریف میاں صاحب سے ناراض تھے٫جنرل راحیل شریف توسیع کے لئے بے تاب تھے ٫توسیع کے لئے انہوں نے خود میاں صاحب سے بات کی.”اس سارے قصے میں محترم عرفان صدیقی صاحب نے “حق نمک “ادا کرتے ہوئے میاں صاحب کو “معصوم “قرار دیا ہے ان کے نزدیک میاں صاحب تو ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق ہی چلتے ہیں یہ بس ادارے ہیں جو کہ میاں صاحب سے پرخاش رکھتے ہیں ورنہ میاں صاحب تو اتنے بھولے ہیں کہ وہ تو” روٹی” کو بھی “چوچی” بولتے ہیں ۔عرفان صدیقی جیسے کماش کے لوگوں کی مجبوری ہے ان کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ پیغمبرانہ معجزات اور اولیاء کرام کی کرامات کو بھی میاں صاحب کے “کھاتے”میں ڈال دیں مگر کیا کریں مذہبی مجبوریاں آڑے آتیں ہیں۔عرفان صدیقی کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن تاریخ اپنی جگہ موجود ہے اگر غیر جانبدارانہ تحقیق کی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ میاں صاحب انہیں اداروں کی پیداوار ہیں جن سے اقتدارِ میں آنے کے بعد لڑے اور اپنا “بوریا بستر” گول کروا کے گھر تشریف لے گئے۔بدقسمتی سے ان کی جنرل ضیاء الحق کے علاؤہ ادارے کے کسی سربراہ سے مثالی تعلقات نہیں رہے۔جنرل اسلم بیگ سے لیکر جنرل باجوہ تک ہر کسی سے ناراض ہی رہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارے کمانڈرز ہی غلط تھے اور صرف موصوف ہی راہ راست پر تھے؟جنرل اسلم بیگ سے ان کا” پھڈا” رہا۔جنرل آصف نواز جنجوعہ سے ایم- کیو -ایم کی وجہ سے اختلافات رہے۔جنرل وحید کاکڑ کا “کاکڑ فارمولا”بڑی مشکل سے مانا۔جنرل جہانگیر کرامت سے ایک تقریر کی وجہ سے استعفا مانگ لیا ذرا دیر ہوئی تو خود فون کرکے جنرل صاحب سے فرمایا “ابھی تک آپ کا استعفا نہیں آیا “۔اس کے بعد اپنے ہی بنائے ہوئے آرمی چیف سے کارگل جنگ پر اختلافات ہوئے ٫فضا میں ہی انہیں برطرف کرکے “اپنے بندے”کو آرمی چیف لگانے کی کوشش کی ۔اجمل قصاب کے معاملے پر پاکستانی اداروں کو موردالزام ٹھہرایا۔جنرل راحیل شریف پر یہ الزام لگایا کہ وہ ملازمت میں توسیع چاہتے تھے ان کی بات نہیں مانی گئی تو پانامہ پیپرز والا کیس اوپن کیا گیا ٫اس کے بعد جنرل باجوہ پر جو الزامات لگائے گئے یہ تو سب ماضی قریب کی بات ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ہی غلط تھے اور موصوف ہی درست ہیں؟اب بات کریں انٹرویو کے دوسرے حصے کی جس میں عرفان صدیقی صاحب فرما رہے ہیں کہ میاں صاحب نے کبھی ڈیل نہیں کی تو ان سے یہ سوال تو بنتا ہے اگر ڈیل نہیں کی تھی تو “سرور پیلس”سعودی عرب میں کیسے چلے گئے؟ پھر معاہدے کے مطابق 2008ء کا الیکشن کیوں نہ لڑا؟لبنان کے نوجوان وزیر اعظم سعد الحریری کو پاکستان آکر وہ دستاویز کیوں دکھانی پڑی جس میں میاں صاحب کی ڈیل کے معاملات درج تھے؟اس لئے عرفان صدیقی صاحب جو ارشاد فرما رہے ہیں وہ تاریخ اور حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ہاں ایسی باتوں سے اگر وہ دربار شاہی میں مزید بلندی چاہتے ہیں تو یہ اور بات ہے مگر اس کے لئے تاریخ کو توڑ مڑوڑ کر پیش نہ کریں بلکہ اپنے لیڈر سے کرامات اور معجزات بھی منسوب کر سکتے ہیں۔ادارے تو اک طرف میاں صاحب 2008ء کے انتخابات کے بعد بننے والی” جمہوری حکومت”جمہوری اس لئے کہا جا رہا ہے کیونکہ کسی حد تک عوام نے ووٹ کا استعمال کیا اور اس ووٹ کی طاقت سے پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی ٫کے خلاف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ چلے گئے تھے جب حسین حقانی کے حوالے سے2011ء میں” میمو گیٹ سیکنڈل “سامنے آیا تھا۔خیر بعد میں میاں صاحب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا کہ مجھے زرداری صاحب کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نہیں جانا چاہیے تھا۔اس لئے میاں صاحب کے سیاسی رویے اور عرفان صدیقی صاحب کے انٹرویو میں بہت تضاد پایا جاتا ہے عرفان صدیقی کے ارشادات پر مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ شعر تو بنتا ہے
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
پروفیسر قیصر عباس!
Urdu in column, urdu news Pakistan