نو جوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں. یاسر دانیال صابری
نو جوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں
نوجوان معاشرے کی تعمیر و ترقی میں انقلاب لاتے ہیں . نوجوان نسل ہی اپنی کلچرل ورثہ کی شناخت کروا سکتے ہیں کل پوری قوم کے آفسرز، لیڈرز نوجوان ہیں زندگی کے مختلف شعبوں سماجی ادارہ ہو چاہے سیاسی ،تعلیمی، اقتصادی ادارے ان ہی نوجوانوں نے سھنبالنا ہیں ۔مستقبل کے چمکتے ستاروں کا منزل مقصود پر مختلف رکاوٹیں عبور کرنا لازم ہیں ۔جس میں تربیت کی کمی ،کم عمری میں شادی معیاری تعلیم کا فقدان اسلامک تعلیم پر توجہ نہ ہونا ،جدید پسندی کے عوامل ،آسائیشیوں کی دلگی ،امیروں کی اطاعت و پیروی ،ضروریات کا نہ ملنا یہ سارے امور جوجوان نسل جو مستقبل کی تیاروں میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ کے حکم کے مطابق دین اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو جوان طبقے کو اس طرف بلایا اور نوجوانوں کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر لبیک کہا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کا نوجوان اپنی خداداد صلاحیتوں کا مثبت استعمال کرتے ہوئے دین و ملت کی فلاح و ترقی کی نئی راہیں تلاش کرے بجائے اس کے وہ مختلف سرگرمیوں میں ملوث ہے ۔دنیور مشہور چوک میں پیسے لگا کر جوا اور مختلف چیزوں چرس اور آئس کا کاروبار گرم ہیں ۔متعلقہ ادارے کہاں غائب ہے۔
آج کا جی بی ہمارا وطن پاکستان نوجوان نسل کو پکار رہا ہے اور منتظر ہے کہ نسل نو اسے ذہنی غلامی سیکولرزم سے بچائے بے مقصدیت غربت بیماری سے بچائے بے روزگاری بین الاقوامی بد دینتی اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلائیں۔ہمارے وطن کا پہاڑ رو رہے ہیں چیخ و پکار ان شہدوں کی جو وطن کے خاطر شہید ہوئے انکی دعاوں اور معصوم بچوں کی وجہ سے ہی ہمیں رزق و روزی ملتی رہی ہے
urdu column, Youth are the asset of any nation
میرٹ پالیسی کے بغیر گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہے۔جہاں میرٹ کی پامالی ہو گی وہاں عدل و انصاف ،احساس کے لوازمات کا خاتمہ ہو گا ۔ہمارے پاک پانی کے چشمے نالوں سے گزر کر دریا گلگت گدلا پانی میں مل کر گندہ ہو جاتے اسی طرح کچھ نو جوان دیگر صحبتوں میں مل کر غلط تربیت کے حامی ہونگے۔
آج اگر نوجوان اور حکومتی ادارے میرٹ کی بالادستی کو یقینی نہیں بناینگے تو کل آنے والی نسل نہ صرف نا اہل بلکہ ملک اور علاقے کی پستی کا سبب بنے گی۔ کیوں کہ گلگت بلتستان CPEC اور سیاحتی لحاظ سے دنیا میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔جہاں کے نوجوانوں کو چاہئے کہ ہر چیز مءں معیار قائم کرنے کی کوشش کریں
حکومتی ملازمتوں میں بغیر رنگ و نسل اور فرقہ واریت سے پاک پالیسی کا قیام ہی ایک تعمیری نسل کو پروان چڑھا سکتا ہے۔
ضرورت سب سے پہلے خود کو ٹھیک کرنے کی ہے۔ نوجوان سوشل میڈیا میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں اور ملکی اداروں کو بلا جواز تنقید کا نشانہ نہ بنایں۔ اپنے اور دوسروں کی رائے کا احترام کریں۔
نوجوان نسل کے تابنا ک مستقبل کے بہترین حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ طلبہ کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی شمولیت کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ گلگت دنیور سلطان آباد میں نیشنل کھیلوں کے لئے گروبڈز بننا چاہے ۔
گلگت پرائیویٹ سیکڑ سکولز اینڈ کالجز میں کشادہ گرونڈ اور فرسٹ ایڈ کیٹ بکس کسی بھی سکول میں موجود نہیں ہیں متعلقہ اداروں تعلیم کے ساتھ سا تھ تربیت پر بھی بھرپور توجہ دے سکولز میں شروع سے ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کریں اور طلبہ کیلئے معلوماتی اور تفریح سے بھرپور
ٹور کا اہمتام کریں ۔ طلبہ کو پاکستان کے خوبصورت شہروں بہترین اور پر کشش مقامات کی سیر کرایا جائے ۔
خدارا اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے ساتھ نا کھیلے ہر کوئی جانتا ہے علاقے میں کس چیز کی ضرورت ہے. یہ سیاسی لوگ کسی کو کچھ نہیں دینے والے. ان سیاسی جھگڑوں سے نکلے اپنے آنے والے نسل کیلئے کچھ کرے ابھی بھی وقت ہے. تمام نوجوان نسل سے میرا یہ درخواست ہے کہ سوچیں اور اپنا وقت ان چیزوں میں ضائع نہ کریں. علاقے کے مشران کو سمجھائے کہ سڑکیں بنانے سے قومیں نہیں بنتی بلکہ تعلیم کے لئے علاقے میں کچھ کرے. نوجوانان اپنی تعلیم پر توجہ دے اپنے علاقے کے لیے خود کچھ کرے اور اپنا مستقبل بنائیے اس خاندانی سیاست سے نکلے آپ کا اور اس قوم کا پیسہ مزید برباد ہونے سے بچائیے. مقابلے کا امتحان دے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اس ٹکنالوجی کے دور میں کچھ سیکھے اور خود سے کچھ بنائیے. میں ہر گز یہ نہیں کہتا کہ سیاست چھوڑے بلکہ سیاسی شعور لائیے. یہی وقت ہے اپنا فیصلہ کرے.طلباء نوجوانان یونیورسٹی کے معاشی مسائل فیسوں میں کئی گنا اضافہ ٹیلینٹ اور غریب طلباء کے لئے تعلیمی رکاوٹیں ردپیش ہے۔
قراقرم یونیورسٹی کے معاشی مسائل کا واحد حل قراقرم بورڈ کو دوبارہ سے فعال کرنا اور تمام سکولز اور کالجز کو اس بورڈ سے منسلک کرنا جس سے گلگت بلتستان کا ریونیو جو فیڈرل بورڈ جاتا ہے وہ وہی روکے گا اور یونیورسٹی بھی کامیاب ہوگی اور خاص طور پر اب گلگت بلتستان کے لوگوں کو اپنے قراقرم ٹیکسٹ بورڈ کی بات کرنی چاہیے اور گلگت بلتستان کی زبان اور تاریخ کو سلئبس کا حصہ بنانا پڑے گا جب تک ہم اپنی ثقافت، تاریخ اور جغرافیہ سے واقف نہیں ہونگے نوجوان نسل کا بہتر مستقبل کا خواب پورا نہیں ہو سکتا
وزیر تعلیم نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ kiu بورڑ کے کنٹرولر کی وجہ سے بورڑ کی حالت خراب ہو گئ ہے۔ لیکن وی سی صاحب نے کنٹرولر پر بورڑ کو قربان کر دیا۔ یہاں ملازمین پہ ادرے قربان ہوتے ہیں۔ یہ غداری ہے اداروں کے ساھ۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اب معاشرہ اور تہذیب رو بہ زوال ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو لازمی بات ہے اس معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگی اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔
کہا جاتا ہے،نوجوانوں میں گمراہی اور بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بلوغت اورنشوونما کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات ان کی سوچ اور فکر کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف جذبات کی شدت انہیں درست فیصلے کرنے نہیں دیتی یہی وہ موقع ہوتا ہے جب نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس وقت انہیں ماں باپ بزرگوں اور اساتذہ کی توجہ نہ ملے تو ان کی شخصیت میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔جیسے ائیک ریزنک موت کا رکس اور سارے موت کے راہی۔۔۔
آج کل معاشرے کے بدلتے رجحانات کے باعث اکثر والدین اپنے بچوں کا مغرب زدہ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ نسلِ نو مغربی فکر وفلسفہ سے اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ مادی دوڑ میں سب سے آگے بڑھ جانا چاہتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشرقی اور مغربی کی مذہبی، سماجی معاشرتی ضرورتیں اور اقدار اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں، اس سے زیادہ نوجوان طبقہ اتنا متاثر ہوا کہ وہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔
نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس فراغت بہت ہے،کرنے کو کچھ نہیں کوئی تعمیری سوچ نہیں۔ تعلیمی مواقع کم ہیں۔ ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں انہیں مایوس اور نا امید کر دیتی ہیں۔وہ کم حوصلے سے بے عمل ہو جاتے ہیں۔ خواہشات اور شیطانی وسوسوں میں پڑ جاتے ہیں،یوں منفی سوچوں کے باعث اپنی ذمہ داریوں اور اسلام سے دور ہو جاتے ہیں۔اس کا حل یہ ہے کہ ان کو ان کی ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر عملی طور پر مصروف رکھا جائے جس سے نہ صرف ان کے سوچ میں تبدیلی آئے بلکہ وہ معاشرے کے فعال رکن بن سکیں۔ان کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ جو انہیں ان کی ذمہ داریوں سے برگشتہ کر کے منفیسر گر میوں میں مصروف رکھ ر رہا ہے، وہ ہے جنریشن گیپ،اس کی وجہ ماں باپ، اساتذہ اور بزرگوں کی بے جا تنقید ہے۔ ان کے بڑے اپنی سوچ اور اپنے زمانے کے حوالے سے دیکھتے ہیں پرکھتے ہیں انہیں اپنی بات کہنے اور منوانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا، جس سے ان میں فرسٹریشن بڑھتی ہے اور وہ اپنے رشتوں سے دور ہوکر خود ہی اچھے برے فیصلے کرتے ہیں اور ساری عمر بھٹکتے رہتے ہیں
وسلام ۔تحریر یاسر دانیال صابرہی
urdu column, Youth are the asset of any nation