جب ہم جیسوں کا وقت آتا ہے! پروفیسر قیصر عباس
جب ہم جیسوں کا وقت آتا ہے! پروفیسر قیصر عباس
جب ہندوستان پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو بڑے عہدوں پر انگلستان سے سرکاری ملازمین کو بلایا جاتا تاکہ وہ اس غلام قوم پر حکمرانی کریں۔خاص کر سول بیوروکریسی کی ایک خاص ذہنیت کے تحت تربیت کی جاتی ۔جس کی وجہ سے مقامی افراد میں انگریز حکمرانوں سے نفرت پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔اس نفرت کو کم کرنے کے لئے انگریز سرکار نے مقامی افراد کو بھی اعلی عہدے دینے کا فیصلہ کیا مگر اس کے لئے حکمرانوں نے شرط عائد کی کہ وہی افراد اس نوکری کے لئے اہل ہونگے جو ایک خاص امتحان دیں گے اور اس امتحان کو” انڈین سول سروس” کا نام دیا گیا۔لیکن یہ امتحان آسان نہ تھا کیونکہ یہ امتحان برطانیہ میں ہوتا تھا اور اس میں امیدوار کے لئے عمر کی حد 23سال مقرر کی گئی۔اس کے بعد حکومت برطانیہ نے ہندوستان میں 1884ءمیں ایک قانون بنایا جسے” البرٹ بل “کا نام دیا گیاجس کے مطابق اس امتحان میں حصہ لینے کے لئے ہندوستانیوں کے لئے عمر کی حد 23 سال سے کم کر کے19سال کردی گئی ۔مقصد بڑے عہدوں تک ہندوستانیوں کی رسائی کو مشکل بنانا تھا۔جب ہندوستان اور پاکستان دو نئے ملک معرضِ وجود میں آگئے تو ہندوستان نے اس امتحان کا نام انڈین سول سروس ہی رہنے دیا مگر پاکستان نے اس امتحان کا نام تبدیل کرکے سنٹرل سپیرئیر سروس رکھ دیا ۔سول سروس کے ڈھانچے کو فعال کرنے کے لئے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک سابق انڈین سول سروس کے سنئیر ترین عہدے دار چوہدری محمد علی کو اس کی ذمہ داری سونپی ٫ یاد رہے یہ وہی چوہدری محمد علی ہیں جہنوں نے جب کانگریس نے بڑی چالاکی کے ساتھ عبوری حکومت میں “وزارت خزانہ” جیسی مشکل وزارت نواب زادہ لیاقت علی خان کو دی تاکہ مسلم لیگی وزیر جب ہندوستان کا بجٹ بنائے گا اور غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا تو ہندوستانیوں کی نظر میں مسلم لیگ بدنام ہوگی مگر لیاقت علی خان نے چوہدری محمد علی کی معاونت سے عوام دوست بجٹ بنایا تو کانگریس کی یہ سازش ناکام ہوگئی اس کے بعد چوہدری محمد علی پاکستان کے چوتھے وزیراعظم بھی بنے۔بہرحال یہ امتحان پاکستان کا مشکل ترین امتحان ہے جس میں چھوٹے صوبوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا ہے تاکہ سول سروس میں چھوٹے صوبے نظر انداز نہ ہوں ۔اس امتحان میں تین گروپس سب سے اہم ہوتے ہیں پہلا گروپ DMG گروپ ہے جس کا اب نیا نام PAS یعنی پاکستان ایڈمنسٹریٹشن سروس ہے اس کے بعد پولیس اور پھر فارن سروس کا گروپ آتا ہے۔کسٹم ٫اکاونٹس ٫کنٹونمنٹ بورڈ ٫ایف بی آر اور دوسرے گروپ اس فہرست میں آتے ہیں۔اس امتحان کے مایہ ناز اور ٹاپرز عموماً پہلے تین گروپس کو جوائن کرتے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص بھی یہ امتحان پاس کرتا ہے وہ کسی بھی محکمے میں جائے اس کا شمار پاکستان کے ذہین دماغوں میں ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں کہہ لیں کہ یہ لوگ پاکستان کی “کریم “ہوتی ہے اور یہ” کریم “مختلف محکموں میں اپنے جوہر دکھاتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ان ذہین دماغوں کا استعمال ملک کو مستحکم کرنے کی بجائے حکومتوں کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کئی قابل آفسر سیاست دانوں کی باہمی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔جن آفسران کا” پاوا”مضبوط ہوتا ہے وہ ہر حکومت میں حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں حکومتوں کے آنے جانے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان میں دو میں سے ایک خوبی لازمی ہوتی ہے یا تو وہ خود کسی مضبوط اور بڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر ارباب اختیار کے جنبش ابرو کو سمجھنے کا ہنر جانتے ہیں اور ہمیشہ “جی حضوری” کے لئے تیار رہتے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو انہیں نہ اچھی پوسٹنگ ملے گی اور نہ ہی کسی اہم محکمہ میں ڈیپورٹیشن جس کی وجہ سے یہ آفسران اپنی نوکری اور اچھی پوسٹنگ کے لئے حکمرانوں کے ہر اچھے برے حکم پر تسلیم خم کرتے ہیں نہیں تو انہیں “کھڈے لائن” لگا دیا جاتا ہے۔اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ بیوروکریسی میں بھی باقاعدہ ایک تفریق پائی جاتی ہے اور ہر بڑے عہدے دار کے بارے میں پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس “صاحب “کا وفادار ہے؟ہر حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد “اپنا بندہ” اہم پوسٹ پر لگائے تاکہ وہ” بندہ” بڑی فرمابرداری کے ساتھ اپنے “صاحب “کے احکامات بجا لا سکے۔جب ان “بڑے صاحب “کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر یہ سرکاری افسر یا تو “وعدہ معاف گواہ “بنتا ہے یا پھر عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہوتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ہمارا کوئی نہ کوئی بیوروکریٹ کسی نہ کسی طریقے سے یا قتل ہوتا ہے یا پھر خودکشی کرتا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں ان میں نجی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں مگر سب سے بڑی وجہ “سیاسی دباؤ”ہے جس کی وجہ سے یہ افسران خودکشی جیسا بڑا قدم اٹھاتے ہیں یہ قدم اٹھانا اتنا آسان تھوڑی ہے کون شخص ہوگا؟ جسے زندگی سے پیار نہیں ہوگا لوگ اپنی جان بچانے کے لئے اپنی تمام دولت لٹا دیتے ہیں مگر یہ طبقہ جو کہ اصل میں اس ملک پر حکمرانی کرتا ہے اور بہترین سہولیات اور آسائشات میسر ہونے کے باوجود آخر اتنا بڑھا قدم کیوں اٹھاتا ہے؟ ۔چند مہینے پہلے پولیس کے حاضر سروس ڈی آئی جی شارق جمال کی جان چلی گئی گوجرانولہ والا میں ایک پولیس آفسر نے خود کو گولی مار لی تھی اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔اب تازہ ترین اور افسردہ خبر چند دن پہلے سننے کو ملی جب ایک نوجوان CSP آفسر بلال پاشا کی لاش ان کے کمرے سے ملی ابھی تک یہ کنفرم نہیں ہوسکا کہ بلال پاشا نے خودکشی کی ہے یا ان کاقتل ہوا ہے۔بلال پاشا ایک غریب گھر سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد مزدور ہیں غریب گھر کا پڑھا لکھا نوجوان CSS کرنے میں کامیاب ہوا اور خانیوال کے ایک پسماندہ گاؤں عبدالحکیم سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان بنوں کنٹونمنٹ میں بطور چیف آفیسر فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ان کی اپنی اہلیہ سے علیحدگی ہوچکی تھی ۔ان کے والد کے مطابق جب بلال پاشا سے ان کی بات ہوئی تو بلال کا کہنا تھا “بابا میرا دل کرتا ہے کہ میں نوکری چھوڑ کے گھر چلا آوں یا چند دن چھٹی لے کے گھر آکر جی بھر کے سو سکوں۔”شنید ہے کہ بلال ڈپریشن کا شکار ہوچکےتھے ۔وجہ جو بھی ہے جب بلال پاشا جیسے غریب گھروں کے بچے محنت کرکے اس مقام تک پہنچتے ہیں تو ان کے لئے یہ سسٹم اتنی رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے کہ ان کو یا تو سسٹم سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے یا پھر جان گنوانی پڑتی ہے ۔یہ جملہ بلال پاشا یا بلال پاشا جیسے کسی سر پھرے کا ہے “جب ہم جیسوں کا وقت آتا ہے تو موت بیچ میں آ ٹپکتی ہے.”
پروفیسر قیصر عباس!
urdu column, When the time comes for the likes of us