ایرانی صدر کا دورہ، پروفیسر قیصر عباس
ایرانی صدر کا دورہ، پروفیسر قیصر عباس
ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور یہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جب کہ اسلامی ممالک میں جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں رکنیت کے لئے درخواست دی توافغانستان نےاس کی مخالفت کی۔گزشتہ روز ایران کے صدر ابراہیم رائیسی نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا ہے اور یہ کسی بھی ایرانی سربراہ کا طویل عرصے بعد دورہ تھا کیونکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اب اتنی گرم جوشی نہیں پائی جاتی اس کی کئی وجوہات ہیں دونوں طرف کے حکام بالا کے اس حوالے سے مختلف موقف ہیں ۔پاکستان کو اس وقت توانائی کے حوالے سے شدید ترین بحران کا سامنا ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے 2008ءسے 2013ء کے دور حکومت میں پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کا افتتاح کیا گیا مگر ابھی تک یہ منصوبہ پایا تکمیل تک نہیں پہنچ پایا اس کی وجہ دراصل امریکہ کا دباؤ ہے کیونکہ ایران پر بین الاقوامی سطح پر پابندیاں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان ایران سے وہ فوائد حاصل نہیں کر پا رہا جو حاصل کئے جانے تھے ۔ہماری خارجہ پالیسی بہت کم حد تک آزاد ہے کیونکہ ہمیں بین الاقوامی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے اور IMFاور دیگر اداروں پر مغربی ممالک خاص کر امریکہ کی گرفت مضبوط ہے اس لئے ہم آزادنہ حثیت میں اپنی پالیسیاں تشکیل نہیں دے سکتے۔جب کہ ہمارے مقابلے میں ہماراپڑوسی ملک بغیر کسی دباؤ کے اپنے قومی مفادات کے تابع اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دے کر اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے ۔بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود پڑوسی ملک نے روس سے تیل خریدا بلکہ سب سے بڑا روسی تیل کا خریدار بھارت ہی ہے جب کہ ہمارے ارباب اختیار امریکہ کی “ہاں” کا انتظار کرتے رہے ۔باکل اس طرح بھارت نے ایران سے گیس کے حوالے سے معاہدات کئے اور ایرانی بندرگاہ “چاہ بہار”میں نہ صرف سرمایہ کاری کی بلکہ ایران کی اس بندرگاہ کو اپنے مفاد کے لئے استعمال بھی کیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایران ہم سے دور اور بھارت کے نزدیک ہوتا گیا ۔پچھلے دنوں ایران نے پاکستانی بلوچستان میں ڈرونز کے ذریعے میزائل داغے اور یہ دعویٰ کیا کہ ان حملوں کے نتیجے میں وہ دہشت گرد مارے گئے ہیں جو ایرانی بلوچستان میں مختلف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث تھے جس پر پاکستانی حکام نے نہ صرف شدید احتجاج کیا بلکہ اس کے ردعمل میں ایرانی بلوچستان
میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بھی میزائلوں سے حملہ کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستانی بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث پاکستانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا کچھ دن تک دونوں ممالک نے اپنے سفیروں کو بھی اپنے اپنے ملک واپس بلا لیا اور یوں وہ ملک جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا اس ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور تاریخ میں پہلی دفعہ معاملات اس نہج پر پہنچ گئے۔ مگر دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت مدبرانہ سوچ کے ساتھ دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے میں کامیاب ہوگئی ۔ایرانی صدر کے دورے کی موجودہ ٹائمنگ بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ پچھلے دنوں اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیا جس کی وجہ سے سفارت خانے میں موجود ایرانی آفیشلز جان سے گئے جس کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں سے حملہ کر دیا اگرچہ اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل کو ژیادہ نقصان تو نہیں ہوا مگر اسرائیل نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا اور ایران پر مزید پابندیاں لگانے کی بات کی جس کی حمایت امریکہ نے بھی کی ۔اس بات سے ہر شخص آگاہ ہے کہ دراصل صہیونی ریاست اسرائیل کی پشت پر امریکہ اور اس کے حواری کھڑے ہیں جن کی سرپرستی میں اسرائیل نے مشرق وسطی میں بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔بدقستمی سے اسرائیل کو تمام عرب ممالک نے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کر رکھا ہے صرف پاکستان اور ایران ہی دو ممالک ہیں جو اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں ۔بنیادی طور پر اسلامی ممالک میں بھی قیادت کی دوڑ لگی ہوئی ہے ترکی اور ملائیشیا اک طرف ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ملائیشیا میں اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس منعقد ہونا تھی جس کی تجویز اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے دی تھی مگر سعودی عرب کے دباؤ کی وجہ سے عمران خان نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی اور اپنی جگہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو شرکت کرنے کے لئے بجھوادیا تھا۔سعودی عرب کے جلاوطن صحافی جمال خوشوگی جن کو ترکی میں سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا تھا یہ واقعہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کا باعث بنا ۔ترکی نے اس کا الزام سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر لگایا۔اب بھی عرب ایران کشیدہ تعلقات کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کی “پراکسی وار “پاکستان میں ہی لڑی جارہی ہوتی ہے ہمارے ہاں شیعہ مسلمانوں کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہوتی ہیں جب کہ سنی مسلمان اپنی ہمدردیاں کا محور سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک تک محدود رکھتے ہیں۔ ۔یہی وجہ ہے کہ اگر ان ممالک کے حالات آپس میں کشیدہ ہوں تو ان کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑتا ہے ۔لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے عرب ممالک اور ایران کے تعلقات معمول پر آرہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے بلکہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ایران سے 9سال بعد حجاج کرام کا ایک قافلہ اس سال حج کےلئے سعودی عرب بھی جائے گا۔اگر ایران اور عرب دنیا کے کے تعلقات بہتری کی طرف جاتے ہیں تو یقیناً پاکستان کے لئے یہ ایک نیک شگون ہوگا بلکہ اسلامی دنیا “بلاکس کی سیاست “سے نکلے گی تو یہ اپنی طاقت منوا سکے گی ورنہ عالمی سامراج ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا رہے گا۔
پروفیسر قیصر عباس!
Urdu column, Visit of the Iranian President,