بریت کا موسم ، پروفیسر قیصر عباس
بریت کا موسم ، پروفیسر قیصر عباس
یوں تو ملک عزیز میں چار موسم ہیں لیکن آج کل ہمارے ہاں ایک اور موسم کا اضافہ ہوگیا ہے اور اسی موسم کا دور دورہ ہے اس موسم کا نام” بریت کا موسم “ہے۔یہ موسم اپنے جوبن پر ہے ۔گزشتہ روز یعنی 12دسمبر 2023 ء کے دن سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کو مشہور زمانہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں عدالت نے بری کر دیا ہے ۔یاد رہے اس کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 2018ء میں میاں نواز شریف کو سات سال قید اور دس سال تک کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نا اہل قرار دیا تھا ۔اس کے بعد نواز شریف طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے۔تقریباً چار سال کے بعد اسی سال اکتوبر کی 21 تاریخ کو واپس تشریف لائے ہیں۔اس سے چند روز قبل یعنی 29نومبر 2023ء کو نواز شریف صاحب کو مشہور زمانہ ایون فلیڈ ریفرنس میں بری کیا گیا تھا ۔یاد رہے ایون فلیڈ ریفرنس میں نواز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان سے کرپشن کر کے پیسہ پاکستان سے باہر بھیجا اور لندن میں ان کے بیٹوں حسین نواز اور حسن نے لندن میں جائیداد خریدی۔یہ وہی جائیداد ہے جس کے متعلق مریم نواز صاحبہ نے کہا تھا” میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے۔”اسی جائیداد کے حوالے سے میاں صاحب نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں خطاب فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا “جناب یہ ہیں وہ ذرائع “.اسی جائیداد کے ذرائع کو درست ثابت کرنے کے لیے قطر کے شہزادے کا خط بطور ثبوت پیش کیا گیا تھا۔مگر اس کے باوجود مریم نواز ٫میاں محمد نواز شریف اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اعوان کو سزا ہوئی تھی اور میاں صاحب کو ایوان وزیراعظم چھوڑنا پڑا تھا اس کے بعد میاں صاحب نے لانگ مارچ کیا اور وہ اک جملہ دہراتے تھے “مجھے کیوں نکالا”.یہ وہی مشہور ریفرنس ہے جس کی تفتیش کے لئے مشہور زمانہ جے آئی ٹی واجد ضیاء کی زیر قیادت بنی جس میں واجد ضیاء کے علاؤہ پانچ اور سرکاری اہلکار بھی شامل تھے۔اور اس جے آئی ٹی نے جو رپورٹ دی تھی اس کے “ولیم 10″نے بہت شہرت پائی تھی۔اس کیس کی تقریباً 9ماہ سماعت چلتی رہی اور ٹوٹل 107دفعہ سماعت ہوئی۔آخر کار اسی کیس میں میاں نواز شریف کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی اور ان بیٹے حسن نواز اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا گیا۔اسی کیس میں میاں صاحب کی دختر نیک اختر مریم بی بی کو بھی سزا ہوئی تھی لیکن میاں نواز شریف لندن تشریف لے گئے اور مریم بی بی کو ضمانت مل گئی۔بہرحال مختلف عدالتوں سے میاں صاحب اور ان کے عزیز واقارب” باعزت بری” ہوتے جارہے ہیں مگر یہاں پر چند ایک سوالات ضرور اٹھتے ہیں ۔کیا پہلے ججز جنہوں نے میاں صاحب اور ان کے اقربا کو سزائیں دیں اورجن تفتیشی اہلکاروں نے تفتیش کی وہ اتنے نااہل تھے کہ ایک بے گناہ شخص اور اس کے خاندان کے افراد کو نہ صرف سزائیں دیں گئی بلکہ عوامی عہدے سے علیحدہ بھی ہونا پڑا اور جلاوطنی اور جیل بھی کاٹنا پڑی؟ ۔سوالات یہاں ضرور اٹھتے ہیں کہ ان تفتیش کرنے والوں نے پھر میرٹ پر تفتیش کیوں نہیں کی اور ایوان عدل میں بیٹھے ہوئے قاضیوں نے عدل و انصاف کاقتل کیوں کیا؟کیاہمارے قانون میں اتنے بڑے سقم موجود ہیں کہ ایک بے گناہ شخص جس نے ملک کی خدمت کی اور تین دفعہ پاکستانی عوام نے اسے ایوان وزیراعظم کا مکین بنایا اسے غلط تفتیش کی وجہ سے نہ صرف ایوان وزیراعظم چھوڑنا پڑا بلکہ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی ؟جس کی قیادت میں پاکستان نے “ایشیائی معاشی ٹائیگر”بننا تھا اس ملک کی ترقی کا پہیہ الٹا چلنا شروع ہو گیا ۔پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا اور آج بھی اس کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔عدلیہ کے آج کے فیصلے درست ہیں یا ماضی کے؟نیب کا آج کا موقف درست ہے یا پھر ماضی کا؟آج کے ججز آزادنہ فیصلے کر رہے ہیں یا ماضی کے؟میاں نواز شریف صاحب پہلے غیر محب وطن تھے یا آج محب وطن ہیں؟یہ بات بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ وطن عزیز میں جہاں ہر شبعہ زندگی میں ہم گراوٹ کا شکار ہیں وہاں ہماری عدلیہ اور نظام قانون بھی اس سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ہمارے ہاں لوگ انصاف لینے کی خاطر عدالتوں کے اتنے چکر لگاتے ہیں کہ جب وہ حصول انصاف کےلئے عدالت آتے ہیں انکی کنپٹیوں کے بال سیاہ ہوتے ہیں مگر جب انہیں انصاف ملتا ہے تو ان کے بالوں میں چاندی اتر چکی ہوتی ہے۔بعض اوقات تو انصاف کا منتظر شخص اس جہان فانی سے کوچ کر چکا ہوتا ہے۔غلط تفتیش ٫جھوٹے مقدمات اور دیر سے انصاف ملنے کے عمل کی وجہ سے شہری جس کرب سے گزرتے ہیں اس کا اندازہ شاید نا تفتیش کرنے والوں کو ہے اور نہ ہی ان قاضیوں کو جن کے ذمہ رب العزت نے اپنی صفت “عدل”انہیں ودیعت کی ہے ۔ ایک بے گناہ کو سزا ملنا اور ایک گناہ گار کا سزا سے بچ جانا اس نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے ۔ناانصافی کسی کے ساتھ بھی نہیں ہونی چاہئے خواہ کوئی عام شہری ہو یا پھر کسی بھی جماعت کا رہنما وہ سیاسی رہنما ہو یا پھر دینی رہنما ۔ہر صورت میں عدل کے تقاضے پورے ہونے چاہئے اور جن معاشروں میں عدل و انصاف کا فقدان پایا جاتا ہے زوال ان معاشروں کا مقدر ٹھہرتا ہے ۔
پروفیسر قیصر عباس!