قسمت کا کھیل ! پروفیسر قیصر عباس
قسمت کا کھیل ! پروفیسر قیصر عباس
بعض دوست ایسے بھی ہیں جو قسمت پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے اس میں قدرت کا کوئی کردار نہیں ہے یہ بات کسی حد تک تو درست ہے مگر مکمل طور پر درست نہیں کچھ چیزیں قدرت نے انسان کے بس میں رکھی ہیں اور کچھ پر کائنات کے بنانے والے نے اپنی مضبوط گرفت رکھی ہوئی ہے۔بہرحال قسمت کا انسانی زندگی میں کردار لازمی ہے اور اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے۔اب اپریل 2022ء سے پہلے کون سوچ رہا تھا کہ سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف دوبارہ اس ملک میں آئیں گے اور ان کو وزیراعظم بننے سے پہلے ہی وزیراعظم کا پروٹوکول دیا جارہا ہوگا؟وہ نیب کا ادراہ جو عدالتوں میں میاں صاحب کی کرپشن ثابت کرنے میں مصروف تھا آج عدالتوں میں میاں صاحب کو معصوم ثابت کر رہا ہے۔جتنی قسمت میاں نواز شریف صاحب پر مہربان ہے شاید ہی کسی اور سیاسی لیڈر پر قسمت نے مہربانی دکھائی ہو۔میاں صاحب واحد سیاسی لیڈر ہیں جو تین دفعہ اس ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے لیکن جہاں قسمت نے ان پر مہربانی فرمائی وہی قسمت نے انہیں پورے پانچ سال ایوان وزیراعظم میں گزرنے نہ دیا ۔ جنرل جیلانی کی مہربانی سے پہلی دفعہ تخت پنجاب پر براجمان ہوئے تو پھر میاں صاحب نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔میاں صاحب 1990ء میں پہلی دفعہ وزیراعظم بنے لیکن غلام اسحاق خان کے ساتھ” ان بن “ہوئی اور وقت سے پہلے ہی صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کی مدد سے نوازشریف کی حکومت کو بر طرف کر دیا مگر سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحق خان کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا ۔نواز شریف نے دوبارہ وزیراعظم ہاؤس میں جانے کی بجائے “کاکڑ فارمولے “کو قبول کر لیا یوں نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو اپنے اپنے عہدے چھوڑنا پڑے۔اس کے بعد بے نظیربھٹو نے حکومت بنائی اور قصر صدارت میں سردار فاروق احمد خان لغاری کو بیٹھا دیا گیا۔لیکن جونہی یہ بلوچ سردار ایوان صدر کا مکین بنا اس نے بے نظیربھٹو کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اس طرح بے نظیر بھٹو کی حکومت اپنے ہی” بھائی “سردار فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوں کرپشن کے الزامات کے تحت ختم ہوگی۔میاں نوازشریف پر ایک بار پر قسمت کی دیوی نے کمال مہربانی دکھائی اور جو نواز شریف پہلی دفعہ “Hung parliament”کے نتیجے میں وزیراعظم بنے تھے 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپس اقتدار میں آئے مگر اس دفعہ دوتہائی اکثریت بھی انہیں راس نہ آئی اور اپنے ہی بنائے ہوئے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ایوان وزیراعظم سے نکالے گئے٫ دوست ممالک کی سفارش پر پھانسی چڑھنے سے بال بال بچے اور سعودی عرب جلاوطن کر دئے گئے۔2007ء میں جب بے نظیر بھٹو وطن واپس آئی تو پھر میاں نواز شریف کے لئے واپسی کا راستہ ہموار ہوگیا مگر حکومت پیپلز پارٹی کی بنی۔2013ءمیں پیپلز پارٹی کی بری کارکردگی کی وجہ سے اس کے بڑے بڑے برج الٹ گئے جس کی وجہ سے پنجاب اور مرکز میں نواز شریف پھر اقتدار میں آگئے لیکن اب کی دفعہ ایک اور پارٹی خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اس جماعت کا نام تھا “پاکستان تحریک انصاف” ۔2018ءمیں ایک بار پھر سے انتخابات کا میدان سجا مگر میدان سجنے سے پہلے ہی میاں نواز شریف کو مشہور زمانہ “پانامہ پیپرز “کی وجہ سے نااہل کردیا گیا اور سزا بھی سنادی گئی ۔2018ء کے انتخابات میں عمران خان “مقدر کے سکندر “نکلے اور ایوان وزیراعظم کے نئے مکین ٹھہرے ۔اب کی دفعہ تین بار وزیر اعظم بننے والا شخص جیل میں تھا اور کرکٹ کی دنیا کا “بے تاج بادشاہ”ایوان وزیراعظم میں جا بیٹھا ۔یہ “کھلاڑی وزیراعظم تقریبا”چار سال ایوان وزیراعظم کا مکین رہا ۔جب اپریل 2022آیا تو عمران خان کی خوش قسمتی کا سورج غروب ہو گیا ۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت اس لئے ختم کی کہ اس کی مدد سے دوبارہ ایوان وزیراعظم میں رسائی ممکن ہوسکے مگر ایک طرف عمران خان چال چل رہے تھے اور دوسری طرف قسمت ٫آخر کار قسمت اپنی چال میں کامیاب ہوئی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں بھی گئی اور خان صاحب کو جیل بھی جانا پڑا اور ابھی تک جیل میں ہیں جب کہ ایک سزا یافتہ شخص جلاوطنی ختم کرکے اپنی انتخابی مہم چلا رہا ہے اور عدالتوں سے “باعزت بری “بھی ہورہا ہےاسے کہتے ہیں قسمت کا مہربان ہونا ۔کل تک جو شخص ملک واپس نہیں آسکتا تھا وہ آج آزادی کے ساتھ ملک کے کونے کونے میں جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے اڈیالہ جیل جا پہنچے ہیں۔ایک وقت وہ بھی آیا جب مسلم لیگ نون کا ٹکٹ لینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا اور پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ Hot Cake بنا ہوا تھا ۔لیکن 9مئی 2023کے بعد حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ وہ موسمی پرندے جو اسلام اور روالپنڈی کی فضا کے مطابق اپنے سیاسی فیصلے کرتے ہیں ٫نے تحریک انصاف کے گھونسلوں سے نکل کر دوبارہ مسلم لیگ نون کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا قسمت میاں نواز شریف پر دوبارہ مہربان ہوتی ہے اور وہ ایوان وزیراعظم پہنچ پاتے ہیں یا نہیں؟جب دوسری طرف جو مشکل وقت عمران خان پر آیا ہے وہ کتنی دیر بعد ختم ہوگا اور کیا وہ بھی ایک بار پھر سے وزیراعظم بن سکیں گے؟ اس بات کا انحصار اب عمران خان کی قسمت پر ہے۔
پروفیسر قیصر عباس!