تہذیب تمدن و ثقافت سے عاری لوگ، یاسر دانیال صابری گلگت
تہذیب تمدن و ثقافت سے عاری لوگ، یاسر دانیال صابری
گلگت بلتستان میں گزشتہ یونیورسٹی میں مخلوط سپوٹس گالا پیش کیا گیا ۔جس کی امامیہ جامیہ مسجد کے صدر نے شدید مذمت کیا ۔
واضع رہے ہماری تہذیب تمدن اور ثقافتی اقدار ہماری آباو اجدہ کی ترسیل تربیت کی سبب سے ہم تک پہنچی ہیں۔ہماری تہذیب و تمدن میں آج تک غیر محرم مرد اور عورت نے مل کر کوئی ہم نصابی سرگرمی انجام نہیں دی ہے۔ کیونکہ ہماری خواتین کی تربیت کے لوزمات اوراق فاطمی اور روپ فاطمی مبنی ہے ۔یہی عورت ہی ہے جس کو ہر شعبہ جات میں آزادی ہے۔ مگر انداز اور افکار و کردار میں روپ فاطمی لانا لازم ہے ۔ اسلئے اس تقاضوں کے پیش نظر کل کے آئی یو میں مخلوط سپوٹس ویک کا قیام ہماری تہذیب و تمدن کو خراب اور بیمار کرنے کا مترادف تھا ۔عوامی حلقوں اور دیگر سوشل میڈیا میں اس کا شدید مذمت کیا گیا۔
گلگت بلتستا کے مختلف آنکھوں سے اوجھل علاقے یا وادیاں جس میں غذر کے علاقے گوپس اشکومن اور استور کے علاقے اور چلاس کے اپر علاقے دائیلوٹ ،منیکال ،چھتیال اور اسی طرح گلگت کے علاقے ہراموش اور بگروٹ ایسے اہم علاقے ہیں جن میں گلگت کی ثقافت کے نفوز اب بھی موجود ہیں ۔سال میں مختلف فیسٹولز کا آغاز کرتے رہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جیسے نسالو فیسٹول باہمی تعلقات کو پاٸداری بخشتی ہے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا ۔یہ ملی یا علاقائی اتفاق ہے آپس کی اتفاق ہی سارے علاقے کی خوشحالی کا سبب بنتی ہے ۔اس لٸے آباو اجداد کی تہذیب و تمدن اور انمول اقدار کو ہر سال علاقے کے عوام الناس بیاک میں جمع ہو کر نسالو فیسٹول جوش و جذبہ کے ساتھ مناتے ہیں ۔گزشتہ سال نسالو فیسٹول بگروٹ میں ہراپ اور ڈانس کیا گیا تھا جس پر بھی عوامی حلقوں نے شدید مذمت کیا گیا۔ مگر ہماری آپس کی الفت و محبت ہی ہیں جو کہ ایک جذبہ ہے۔ جو انکی دلوں کے کشادگی اور رویوں کو شاٸستاگی عطا کرتا ہے۔
نسالو فیسٹول کی اہمیت ان علاقے کے لوگوں کے لٸے ہی ہیں ۔مقصدیہ گلگت بلتستان کلچر و فیسٹول ڈی فروغ مطلب دوستوں تک کی پہچان اور تحفط دینا ہے تا کہ آنے والے نسلوں تک آباد رہے۔گلگت بلتستان کی آنکھوں سے اوجھل وادیاں جن میں استوار , سکردو, دیامر , کھرمنگ , چلاس ,غذر کے شہروں کے علاوہ گاوں لیول میں نسالو فیسٹول اب بھی لوگ مناتے آ رہے ہیں ۔اسکے علاوہ دیگر یہ کہ انسان وقت کے ساتھ ساتھ تغیر پسند ہے۔ اپنے اندر تبدیلی لانا پسند کرتا ہےاور آسانیوں کی طرف چلا جاتا ہے ۔انسان کی فطرت میں آسائش کو گلے لگانا ہے۔
پاکستان کا ہر فرد جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے میں لگا ہوا ہے اس مہنگاٸی لت کا شکار ہے کیونکہ بازار کے بناوٹی چیزوں کا عادی ہوتا رہا۔ ان میں پیسہ کی ترسیل کاروبار یا جمع کرنا مشغلہ بنا رکھا ہے ۔اسکی صحت کے لٸے ٹھیک نہیں ہیں ۔ایک فرد شام کو مرغی کا چکن بازار سے لاتا ہے ۔اور نسالو فیسٹول نہیں مناتا ہے ۔ اسی طرح دیگر چیزیں ہیں جن کی وجہ سے مصروف علاقہ کسی نہ کسی طرح سال میں فیسٹول کی قدر میں جمع ہوا کرتا تھا لیکن موجودہ دور جدید میں گلگت بلتستان کے سٹیز میں ختم ہوا اب جو گلگت شہر سے دور دراز علاقے ہیں وہاں پر نسالو فیسٹول موجود ہے اسکی ایک فاٸدہ یہ ہے کہ علاقے کے لوگ ایک جگہ نسالو فیسٹول کے نام سے جمع ہوتے ہیں آپس کی نفرتوں کو بلا دیتے ہیں ۔اتفاق کی باتیں اور دیگر علاقے کی براٸیوں کا بھی آپس میں ذکر کیا جاتا ہیں اور علاقے کی سہولتوں کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔اس فیسٹول میں کسی نماٸندے کو بھی ضرور بلایا جاتا تاکہ تازہ گوشت کی کڑیاٸی اور بکری کا گوشت سے مہمان نواز کیا جا سکے جو کہ دیگر سوشل میڈیا میں دیکھنے والوں کے لٸے ایک اچھی کلچر ایمیچ بن سکے۔۔۔۔اس فیسٹول کی وجہ سے بھی نماٸندے علاقے کے مساٸل کہی حل کر سکے ۔میرا کہنے کا مقصد اس فیسٹول سے الفتیں ایک دوسرے کے لٸے بڑھ جاتی ہیں اور یوں علاقہ خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکے اور صحت مندانہ امور کی طرف چلا جاٸے اور نسالو فیسٹول آباو اجداد کی کلچر کو فروغ دیتا ہے جس سے علاقے کی پہچان ہوتی ہیں۔نسالو فیسٹول مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ کا باعث ہے جس سے علاقہ و سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے ہیں۔ کسی بھی علاقے یا معاشرے میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔کلچر کی تحفظ اسکی انجام دہی سے ہیں وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس کی جڑوں میں جاندار تہذیب اور مثبت ثقافت کی آبیاری ہورہی ہو۔ جس کی جڑوں میں آباو اجداد کی کلچر کی بیچ بو رہے ہوں ۔وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔جس کی کلچر ایک فیسٹول زندہ ہوں
Urdu column, People without civilization and culture
۔وسلام
تحریر: یاسر دانیال صابری