پرامن افراد دہشتگردی کی نذر ! پروفیسر قیصر عباس

پرامن افراد دہشتگردی کی نذر ! پروفیسر قیصر عباس
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر پاکستان کے چاروں صوبوں اور کشمیر وگلگت بلتستان میں سے سب سے پرامن اور بے ضرر افراد کی نشاندہی کرنی ہو تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سب سے زیادہ پرامن اور مہمان نواز لوگ ارض گلگت وبلتستان میں بستے ہیں ۔مگر گزشتہ چند سالوں سے وہاں ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جن کی وجہ سے اس علاقے کا امن داؤ پر لگ گیا ہے۔گزشتہ روز ضلع دیامر کے علاقے چلاس کے نواحی قصبے “ہڈور”میں دہشت گردوں نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا اور چلتی ہوئی بس پر فائرنگ کی گئی جس کی وجہ سے بس بے قابو ہوکر ایک ٹرک سے ٹکرا گئی۔ جس کے نتیجہ میں ٹرک میں آگ لگ گئی یک دم آگ بھڑکنے سے ٹرک کا ڈرائیور زندہ جل گیا جب کہ بس میں موجود 8مسافر جن کا تعلق گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے تھا شہید ہوگئے ۔اہلیان گلگت بلتستان پہلی دفعہ اس دہشت گردی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اس سے پہلے دو دفعہ مسافر گاڑیوں میں سفر کرنے والے گلگتی اور بلتستانی اس طرح کی درندگی کا شکار ہوچکے ہیں۔2012ء میں روالپنڈی سے گلگت جانے والی مسافر کوچ کو خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان میں نشانہ بنایا گیا اور سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر اور ان کی شناخت کرکے انہیں گولیاں ماری گئی اس واقعہ میں جان کی بازی ہارنے والے مسافروں کی تعداد 18 تھی۔جب گلگت بلتستان کے رہائشیوں نے ان واقعات سے بچنے کے لئے متبادل راستہ کا انتخاب کیا اور کوہستان کی بجائے بابوسر ٹاپ والے راستے کو اختیار کرنا شروع کیا تو دہشت گردوں نے بابوسر ٹاپ میں ایک پھر سے قتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔یوں مجموعی طور پر یہ دہشت گردی کا یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔لیکن ان واقعات کے باوجود پاکستانی حکومت اور گلگت بلتستان کی حکومت کیوں ناکام نظر آتی ہے؟ گلگت بلتستان کے موجودہ وزیر داخلہ شمس الحق لون نے اس دہشتگردی کی ذمہ داری بھارتی خفیہ ایجنسی” راء” پر ڈال دی ہے ۔ ہوسکتا ہے وزیر داخلہ گلگت بلتستان کی بات درست ہو لیکن سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دشمن ملک کی ایجنسی اس طرح کے گھناؤنے اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تو ہمارے ارباب اختیار نے ان واقعات کے سدباب کے لئے کیا لائحہ عمل اپنایا ہے؟ظاہر ہے اس کاروائی کو کرنے کےلئے باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہوگی جب یہ پلاننگ ہو رہی تھی تو ہمارے “ذمہ داران”کیا کر رہے تھے؟اک بات تو طے ہے کہ اس خطے کی سٹریٹیجک اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔خصوصا چین اور سی پیک کے حوالے سے اس خطے کی بہت اہمیت ہے ۔پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم “دیامر بھاشا ڈیم “اسی علاقے میں زیر تعمیر ہے۔اس لئے اس علاقے میں امن قائم کرنا ارباب اختیار کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔یہاں اس سے پہلے فرقہ ورایت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور شیعہ سنی مکاتب فکر کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔لیکن دونوں مسالک کے باشعور اور صاحبان بصیرت و بصارت کی وجہ سے اس آگ کو لگنے سے پہلے ہی بجھا دیا گیا۔لیکن سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ فرقہ وارانہ آگ کو اس وقت ہوا دی گئی جب اس علاقے کے باشعور افراد نے اپنے” حقوق “کی آواز بلند کی تو خفیہ ہاتھوں نے اس خطے کے افراد کو تقسیم کرنے کی پرانی پالیسی” تقسیم کرو اور حکومت کرو” کو اپنانے کی کوشش کی۔اب تازہ ترین صورت حال کے مطابق چونکہ اس علاقے کو گندم کوٹہ فراہم کیا جاتا ہے اور گندم پر خصوصی سبسڈی دی جاتی رہی ہے۔موجودہ نگران حکومت نے اس سبسڈی کو ختم کر کے “ٹارگٹڈ سبسڈی”کا طریقہ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے خاص افراد کو ہی گندم پر سبسڈی کی سہولت حاصل ہوگی۔اس حکومتی اقدام کی وجہ سے پورا خطہ سراپا احتجاج ہے اور گلگت بلتستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی ہے ۔اب کچھ دانشوروں کے مطابق “سانحہ ہڈور” اس احتجاجی تحریک کے حوالے سے توجہ ہٹاؤ مہم کی کڑی ہوسکتی ہے۔یہ ایک نقطہ نظر ہے اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ۔مگر اس بات پر تمام معتبر اور محب وطن طبقوں کا اتفاق ہے کہ اس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے جس قدرتی حسن سے مالامال کیا ہے ہم اس سے بھرپور انداز سے فائدہ نہیں اٹھا سکے یہ علاقہ قدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے صرف سیاحت کو فروغ دے کر ہم اربوں روپے کما سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے انفراسٹرکچر کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے نہ صرف یہاں کے باشندے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں بلکہ بنیادی ضروریات زندگی خصوصاً تعلیم اور صحت سے بھی محروم ہیں اندازہ لگا لیں کہ اس پورے خطے میں کوئی میڈیکل کالج نہیں کوئی انجنیرنگ یونیورسٹی نہیں ۔لوگوں کو علاج کروانے کے لئے ایبٹ آباد آنا پڑتا ہے یا پھر کراچی اور راولپنڈی کا رخ کرتے ہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لئے بھی پنجاب اور سندھ جانا پڑتا ہے۔اگر ہم ان کی محرومیاں ختم نہیں کرسکتے تو انہیں کم ازکم زندگی کا تحفظ تو دیں۔
پروفیسر قیصر عباس!
urdu column, Peaceful people under terrorism

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں