لوٹ سیل! پروفیسر قیصر عباس!

لوٹ سیل! پروفیسر قیصر عباس!
urdu column, Loot sale, urdu news
پاکستان میں اس وقت لوٹ سیل جاری ہے ایک طرف معاشی طور پر ہمارا ملک مفلوج ہو گیا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے ارباب اختیار کی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔اب تازہ ترین خبر سنیے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پنجاب کی نگران حکومت لاہور ہائی کورٹ کے گیارہ ججز کو 36 کروڑ روپے قرضہ بلاسود دے گی۔یہ ججز 12 سال کی مدت تک قرضہ واپس کریں گے۔تمام ججز کی تین سال کی بنیادی تنخواہوں کے برابر قرضہ دیا جائے گا۔کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس نے قرضے کی منظوری دے دی ہے۔سرکاری طور پر اس سے پہلے بلاسود قرضے دینے کی کوئی مثال سامنے نہیں آئی۔ان خوش قسمت ججز میں جسٹس راس الحسن سید ٫جسٹس شکیل احمد ٫جسٹس محمد طارق ندیم٫جسٹس محمد امجد رفیق٫جسٹس عابد حسین چھٹہ ٫جسٹس انور حسین ٫جسٹس علی ضیاء باجوہ٫جسٹس راحیل کامران ٫جسٹس احمد ندیم ارشد٫جسٹس صفدر سلیم شاہد اور جسٹس محمد رضا قریشی شامل ہیں۔لاہور ہائی کورٹ کے ایوان عدل میں بیٹھے یہ وہ ہیرے ہیں جن پر حکومت پنجاب کمال مہربانی دکھا رہی ہے اور انہیں بلاسود قرضے دینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سہولت کسی عام پاکستانی کو بھی حاصل ہے؟کیا ایسا ممکن ہے کہ ارض پاک میں کسی عام پاکستانی کو اتنا قرض بغیر کسی شرط کے مل جائے ؟اس کا جواب یقیناً ناں میں ہوگا ۔پھر کیا یہ تاثر درست ہے کہ ایک خاص طبقہ جسے ہم اشرافیہ کا نام دے سکتے ہیں ٫ نے اس وطن عزیز کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے جو کہ اس ملک کے خون کو آخری قطرے تک نچوڑ رہا ہے۔ایک طرف ملک کی معاشی حالت قابل رحم ہے چند ارب ڈالرز کے حصول کے لئے ہم آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہوچکے ہیں اور ہونگے بھی کیوں نہیں ؟ کیونکہ ہمیں اس وقت مالی مدد کی شدید ضرورت ہے ۔جس کی وجہ سے ہم آئی ایم ایف کے تمام مطالبات ماننے کو تیار ہوچکے ہیں۔پٹرولیم مصنوعات سمیت بجلی بھی مہنگی ہو چکی ہے غریب آدمی کے لئے بجلی کے بل ادا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔مہنگائی کا بوجھ غریب پر لدھا جارہا ہے جب کہ چند فیصد افراد اپنی عیاشیاں کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔مشکل فیصلوں کے بارے ہمیشہ اسی غربت کی چکی میں پستی ہوئی عوام کو تیار رہنے کے لئے کہا جاتا ہے مگر ان مشکل فیصلوں کا اطلاق اس اشرافیہ پر نہیں ہوتا۔ڈالر آسمان سے باتیں کررہا ہے سونا کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا جب کہ چینی کی سمگلنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی ۔چینی کی ذخیرہ اندوزی بھی ہوئی ہے ان تمام کاروائیوں اور کارستانیوں کے پیچھے عام آدمی تو ملوث نہیں ہوسکتا یقیناً وہ بڑے مگرمچھ شامل ہیں جن کی گردنوں تک قانون کے لمبے ہاتھ پہنچتے ہوئے سو بار سوچتے ہیں کہ اگر ان مافیاز پر ہاتھ ڈالا گیا تو ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا ہاں قانون کو شرمندگی کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔دوسری طرف جن حضرات کو قرض ملا ہے وہ بھی اس اشرافیہ کا حصہ ہیں ان کی تعلق داریاں پاکستان میں فیصلہ ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ان ناخداوں کے ساتھ ہیں بدقسمتی سے جن کے ہاتھوں میں اس ملک عزیز کی باگ ڈور ہے ۔یہ ناخدا بیوروکریسی میں بیٹھے ہوئے ہیں کچھ کے ذمہ ملک کے دفاع کی ذمہ داری ہے کچھ عدل کے ایوانوں میں لگی کرسیوں پر براجمان ہیں اور کچھ مجلس شورٰی میں قانون سازی کر کے ایسے عناصر کی سہولت کے لئے قانون سازی کرتے ہیں ۔اس طبقہ نے ملک عزیز میں لوٹ سیل کا سماں بندھ رکھا ہے اور اس لوٹ سیل میں جس کا جتنا جی چاہتا ہے لوٹتا ہے ۔ urdu column, Loot sale, urdu news

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں