طوفان الاقصی. پروفیسر قیصر عباس!

طوفان الاقصی. پروفیسر قیصر عباس!
دور حاضر میں دوریاستیں ایسی ہیں جو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئیں ہیں ایک پاکستان اور دوسری اسرائیل ۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا جب کہ اسرائیل یہودیت کے نام پر۔14 مئی 1948ء ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔15 مئی کو عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کردیا کیونکہ عرب ممالک کا موقف ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔اسرائیل کا معاشی مرکز تل ابیب ہے جب کہ زیادہ آبادی یروشلم میں آباد ہے بین الاقوامی برادری خصوصاً اسلامی ممالک یروشلم کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔اسرائیل کی کل آبادی 8146300 افراد پر مشتمل ہے ۔ان میں سے 611066افراد یہودی ہیں۔اسرائیل کا بڑا گروہ عربی النسل یہودی ہے جن کی تعداد1686000ہے ۔اس کے علاؤہ مسیحی اور دیگر اقوام بھی یہاں آباد ہیں۔اسرائیل میں نمائندہ جمہوریت ہے اور پارلیمانی نظام ہے۔یہاں یک ایوانی مقننہ ہےاورانتظامیہ کا سربراہ وزیرِ اعظم ہے۔اسرائیل دنیا کی 43ویں معیشت ہے۔یوں تو اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب ممالک کے ساتھ اس کشیدگی شروع ہوگئی تھی مگر پہلی باضابطہ جنگ 1967 میں تب شروع ہوئی جب یہودیوں نے مسجد اقصٰی کو آگ لگا دی ۔عرب قوم پرستوں نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی قیادت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔مسائل یہاں تک بڑھ گئے کہ اسرائیل نے جنگ کا آغاز کردیا اورچھ روزہ جنگ شروع ہوگئی ۔اسرائیلی ائیر فورس نے اسرائیل مخالف عرب ممالک عراق٫مصر٫اردن اور شام پر برتری حاصل کرلی۔اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا اور یروشلم کی حدود بھی بڑھا دیں ۔یوں فلسطینی ریاست کا رقبہ کم اور اسرائیل کے رقبے میں اضافہ ہوگیا۔1967ء کی عرب اسرائیل جنگ ہی اسلامی ممالک کی تنظیم OICکی وجہ تخلیق بنی ۔جس کی بنیاد مراکش کے شہر رباط میں 1969ء کو رکھی گئی ۔اسرائیلی لابی اتنی مضبوط ہے جو اسرائیلی جارحیت کو مدافعت کانام دے کر دفاع کرتی ہے ۔اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی امریکہ اور برطانیہ ہے اور دنیا کی معیشت پر یہودیوں کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے مالیاتی ادارے بھی بے بس ہیں۔اسرائیلی انتظامیہ دنیا بھر میں موجود یہودیوں کو اکھٹا کرکے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں بسارہی ہے۔PLO جو کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم جس کی بنیاد 1960ء میں رکھی گئی تھی’ نے فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی جب PLO کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی تو ایک اور تنظیم حماس سامنے آئی جو کہ اس وقت فلسطین کی پسندیدہ اور مقبول ترین جماعت ہے۔حماس حریت پسند فلسطینیوں کی ایسی جماعت ہے جس کی حمایت لبنان میں شیعہ تنظیم حزب اللہ اور اس کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کررہے ہیں۔جب کہ اسلامی ممالک میں ایران اسرائیل کی کھلے الفاظ میں مذمت اور فلسطین کی حمایت کررہا ہے۔اگرچہ ترکی ان اسلامی ممالک میں شامل ہے جس نے سفارتی سطح پر اسرائیل کو باقاعدہ ریاست تسلیم کیا ہوا ہے مگر وہ بھی حماس اور فلسطین کی حمایت کرتا ہے۔عرب کے سرکردہ ممالک جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اگرچہ اسرائیل کو بطور ریاست تو تسلیم نہیں کیا مگر اسرائیل کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔پاکستان دنیا اسلام کی واحد اسلامی ریاست ہے مگراس پر بھی امریکہ اور دیگر یورپین ممالک کی طرف سے اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے حوالے سے شدید دباؤ ہے ۔ایک بات بالکل حقائق پر مبنی ہے کہ اگر پاکستانی عوام کا ڈر ارباب اختیار کو نہ ہوتا تو اب تک اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا ہوتا مگر عوامی غیض وغضب کی وجہ سے پاکستانی حکمران اسے تسلیم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔اب موجودہ صورت حال ہے کہ پچھلے ہفتے کی رات کو حماس نے اسرائیل پر صبح کے وقت راکٹوں سے حملہ کردیا اور حماس کے جنگجو اسرائیلی علاقے میں گھس گئے جس کی وجہ سے کم از کم دو سو زائد اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں اور سو سے زائد فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے ان یرغمالیوں میں ایک اسرائیلی میجر جنرل” نمرود الونی” بھی شامل ہے حماس نے اس کاروائی کو” طوفان الاقصی”کا نام دیا ہے۔حزب اللہ اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ائ نے حماس کی اس کامیابی پر انہیں مبارک باد دی ہے لیکن اسرائیل کا ردعمل بھی شدید ترین ہے اس نے مقبوضہ غزہ پر بمباری شروع کردی ہے جس کی وجہ سے فلسطینی عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔دوسری طرف اسرائیل نے لبنان پر بھی بمباری کی ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کے تین کارکن شہید ہوچکے ہیں ۔اسرائیل نے لبنان کے ساتھ سرحد پر ایک لاکھ سے زائد فوجی تعینات کردیے ہیں۔الجزیرہ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی وزرات صحت کے مطابق اب تک اسرائیلی حملوں سے 667 فلسطینی شہید اور3800سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔بین الاقوامی برادری بھی اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے اب کی دفعہ گزشتہ 75 سال کی نسبت اسرائیل کی فضائی حملے سب سے زیادہ ہولناک ہیں جس نے فلسطینی شہروں کو ملیامیٹ کر دیا ہے۔جرمنی اور آسٹریا نے فلسطینی متاثرین کی امداد روک دی ہے جس سے کئی لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ “ہم یہودی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں اسے جو چاہے ہوگا دیں گے “.جب کہ نیویارک برطانیہ اور سڈنی میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔امریکہ ٫برطانیہ اور اسرائیل نواز ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔اگر اسرائیل نواز ملک حریت پسند فلسطینی جماعت حماس کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں تو 57ممالک پر مشتمل مسلم امہ کدھر سوئی ہوئی ہے ؟جب وہ باطل پر ہوکر باطل کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے تو اسلامی ممالک کے حکمران حق پر ہو کر حق کے ساتھ کیوں کھڑے نہیں ہوتے؟

ڈیڈ لائن ، پروفیسر قیصر عباس کا اردو اکالم ،، بڑھیئے
urdu column, international news

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں