ڈیڈ لائن! پروفیسر قیصر عباس

ڈیڈ لائن! پروفیسر قیصر عباس
urdu column , deadline
افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔افغانستان سے تعلقات پاکستان بننے سے بہت پہلے کے ہیں ۔حتی کہ ہندوستان پر جتنے بھی بیرونی حملے ہوئے سارے حملہ آور افغانستان کے ذریعے آئے ۔جب برطانیہ نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو برطانیہ کے وزیر خارجہ سر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبدالرحمن کے درمیان 1893ءمیں ایک معاہدہ طے پایا جس کی وجہ سے برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان سرحد کا تعین کیا گیا اور اس سرحد کو دنیا ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانتی ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں نے ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور کی خلافت کو بچانے کے لیے جب تحریک خلافت چلائی اور یہاں کے علماء نے ہندوستان کو “دارالحرب”قرار دے کر افغانستان کی طرف ہجرت کرنے کا فتویٰ جاری کیا تو افغانستان کی حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں پر افغانستان کا باڈر بند کردیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جو دین کی خاطر اپنا گھر بار بیچ کر افغانستان کی طرف ہجرت کرگئے تھے کچھ واپس آگئے اور کچھ لقمہ اجل بن گئے۔جب ہندوستان کے مسلمانوں کی جدوجہد سے پاکستان معرض وجود میں آگیا تو نئے ملک کے لئے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنا بھی ایک اہم مسلہ تھا۔جب پاکستان نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دی تو اس کی مخالفت صرف ایک ملک نے کی اور وہ واحد ملک افغانستان تھا۔پاکستان بننے کے ساتھ ہی افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور” پختونستان”کا شوشہ چھوڑ دیا اس نظریہ کے مطابق موجودہ KPK اور قبائلی علاقوں پر افغانستان نے اپنا حق جتلانا شروع کردیا۔روس نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو ہم نے افغانیوں کی جنگ کو افغان جہاد کا نام دیا اور اس جنگ میں امریکہ کی آشیر باد سے اس میں کود پڑے ایک سپر پاور کی “ہلہ شیری” سے دوسری سپر پاور کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوئے مگر جب روس جیسی سپر پاور کاخاتمہ ہوا تو امریکہ نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ افغانیوں کے اسلحہ سے لیس مختلف گروپس نے آپس میں ہی لڑنا شروع کردیا اور افغانستان خانہ جنگی کی طرف چلاگیا جب کہ پاکستان کے حصے میں لاکھوں افغان مہاجرین ٫کلاشنکوف کلچر ٫منشیات٫ فرقہ ورایت اور بم دھماکے آئے ۔90ء کی دہائی میں پاکستان کے مدارس سے پڑھنے والے ایک گروپ جس کی قیادت ملا عمر کر رہے تھے

افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔اس دور میں تھوڑے عرصے کے لئے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہوئے مگر 9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی اور بھارت نواز ٹولہ افغانستان کے اقتدار پر بیٹھا دیا۔جس کی وجہ سے بھارت نے پاکستانی سرحد کے قریب افغان شہروں میں اپنے قونسل خانوں کاایک جال بچھا دیا ان قونسل خانوں نے تجارت کم اور جاسوسی پر زیادہ توجہ دی۔نتیجہ پاکستان میں خودکش حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس نے نا صرف پاکستان کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا بلکہ فورسز کے جوانوں کو بھی نشانہ بنایا۔امریکہ طالبان سے معاہدہ کرکے افغانستان سے نکل گیا ہے اور حکومت ایک دفعہ پھر سے طالبان کے کنٹرول میں ہے مگر اب کی دفعہ طالبان سرحدی دراندازی کو روکنے کے لئے بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغان انتظامیہ سے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن طالبان قیادت نے ان شکایتوں کو سنجیدہ نہیں لیا۔جس کی وجہ سے آئے روز پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں بھی خودکش حملے ہورہے ہیں ۔مزید TTP نے بلوچستان کی ان دہشتگرد تنظیموں سے بھی تعلقات استوار کر لئے ہیں جن کا مقصد بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی ہے۔ان تنظیموں کو ساتھ ملا کر تحریک طالبان پاکستان بلوچستان کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔پاکستان کو افغانستان کی بارڈر کے حوالے سے دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم مسلے کا بھی سامنا ہے اوروہ سمگلنگ ہے ۔اشیاء خورو نوش کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل کرنسی یعنی ڈالرز کی سمگلنگ بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔اب موجودہ حکومت نے ان مسائل پر قابو پانے کے لئے ان افغان شہریوں کو جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں٫ کو پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔31اکتوبر 2023 کے بعد جو افغانی پاکستان نہیں چھوڑے گا اسے ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔جو غیر قانونی افغان شہریوں کی رہائش کے بارے معلومات دے گا اسے انعامی رقم بھی دی جائے گی اور اس شخص کا نام بھی صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔31اکتوبر کے بعد جو افغان شہری پاکستان میں مقیم ہوگا اس پر ویزہ پالیسی لاگو ہوگی۔اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی شہریوں کو رہائش اور ایسی کمپنی جو انہیں نوکری دے گی ٫ کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی ۔جعلی شناختی کارڈز ٫پراپرٹی اور کاروبار کی جانچ پڑتال کے لئے ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔سکیورٹی اداروں کی رپورٹس کے مطابق رواں سال 24خودکش حملے ہوئے ہیں ان 24خودکش حملوں میں 14خودکش حملوں میں افغان شہری ملوث ہیں ۔نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت منگل کے دن نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف ٫وفاقی وزراء صوبائی وزراء اعلیٰ سمیت قانون نافذ کرنے والے سول اور عسکری اداروں کے سربراہان نے شرکت کی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔پاکستان کی افغان پالیسی کو ہمیشہ ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے لیکن موجود حکومت نے افغان پالیسی کے حوالے سے ایک جرآت مندانہ موقف اپنایا ہے جو کہ قابل تعریف اقدام ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پالیسی پر کہاں تک عمل ہوتا ہے؟ اگر موجودہ حکومت اپنی پالیسی پر عمل کروا لیتی ہے تو پاکستانی ارباب اختیار پر یہ محاورہ صادق آئے گا”دیر آید درست آید” ۔

تنگ آمد جنگ آمد … کالم ،، شبیر احمد شگری

urdu column , deadline

پروفیسر قیصر عباس!

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں