یہودیت ،عیسائیت اور اسلام، پروفیسر قیصر عباس!
یہودیت ،عیسائیت اور اسلام، پروفیسر قیصر عباس!
دور حاضر میں دنیا میں تین مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔جو لوگ حضرت موسٰی علیہ السلام کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں یہودی کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں نصاریٰ یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں انہیں مسلمان کہاجاتا ہے۔تینوں مذاہب کے پاس الہامی کتابیں موجود ہیں یہ علیحدہ بحث ہے کہ ان میں کس حد تک تحریف یا ردوبدل ہوچکا ہے؟سوائے قرآن پاک کے ۔یہودی توریت کو مانتے ہیں جو کہ حضرت موسٰی پر نازل ہوئی ٫عیسائی انجیل مقدس کے ماننے والے ہیں جبکہ مسلمانوں کا اعتقاد قرآن پاک پر ہے۔تینوں مذاہب کے انبیاء کرام جد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔حضرت ابراہیم نے ایک شادی حضرت سارہ سلام اللہ علیہا سے کی جب کہ دوسری شادی حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا سے فرمائی ۔اللہ تعالٰی نے حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کو حضرت اسحق علیہ السلام عطاکیا جب کہ حضرتِ ہاجرہ کی گود حضرت اسماعیل علیہ السلام سے آباد کی ۔حضرت اسحاق علیہ السلام کے ایک فرزند کانام یعقوب علیہ السلام تھا جن کا لقب” اسرائیل” تھا . اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے” اللہ کابندہ”یعنی عربی زبان میں” اسرائیل” کا مطلب “عبداللہ”ہے۔اسلامی تاریخ میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ جب حضرتِ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی حضرتِ یوسف علیہ السلام کوحسد کی وجہ سے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو یعقوب علیہ السلام کے جس بیٹے نے حضرتِ یوسف علیہ السلام کے قتل سے باز رکھا اس کا نام یہودہ تھا جس کی نسل یہودیوں سے چلی اور کم بیش چار ہزار پیغمبربنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے ان چار ہزار انبیاء میں سے کچھ پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور کچھ کو جھٹلایا ۔بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔یوں حضرتِ اسحاق علیہ السلام کی نسل سے چار ہزارسے زائد انبیاء تشریف لائے جب کہ ان کے بھائی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے کوئی نبی نہ آیا سوائے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جن کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔بیت المقدس یعنی مسجد اقصٰی یروشلم میں واقع ہے بیت اللہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کا مقدس ترین مقام گردانا جاتا ہے کیونکہ بیت اللہ سے پہلے مسلمانوں کا قبلہ اول بھی رہ چکا ہے یہودیوں کا اعتقاد ہے کہ جہاں مسجد اقصٰی تعمیر کی گئی ہے یہاں ہیکل سلیمانی ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کروایا تھا۔جب کہ “دیوار گریہ”بھی یہی موجود ہے ۔رہ گئے عیسائی تو ان کے نزدیک حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی ولادت اسی ارض مقدس میں ہوئی ہے ۔مسلمانوں اور عیسائی کے درمیان کئ صلیبی جنگیں بھی ہوچکیں ہیں۔یعنی یہ خطہ تینوں الہامی مذاہب کے لئے اہمیت کا حامل اور وجہ تنازع ہے ۔مگر دور حاضر میں یہ مذہب سے زیادہ زمین کے ٹکڑے کی جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔اسرائیل اس وقت ایک صہیونی ریاست ہے جو کہ فلسطینی زمین پر قابض ہے ۔فلسطینی صرف مسلمان نہیں بلکہ عیسائی مذہب سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔جو کہ ایک صہیونی ریاست کے خلاف لڑ کر جارحیت کا شکار ہورہے ہیں۔ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سارے یہودی اسرائیل کے حق میں بھی نہیں ہیں بلکہ بہت سے یہودیوں کی ہمدردیاں فلسطینی مظلومین کے ساتھ ہیں۔جتنے بھی احتجاج ہورہے ہیں کہ کیا وہ صرف اسلامی ممالک میں ہورہے ہیں ؟نہیں بلکہ اس احتجاج میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن صرف انسانی ہمدردی کی وجہ سے وہ اسرائیل کےخلاف اور فلسطین کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔کیونکہ یہ بات ساری دنیا کو معلوم ہے کہ ارض فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے اور دنیا بھر سے صہیونی فکر رکھنے والے افراد کو اس خطہ میں لا کر بسایا گیا تھا اور بسایا جا رہا ہے تاکہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جائے اور دنیا کو بتایا جا سکے کہ اسرائیلی آبادی میں زیادہ ہیں جب کہ فلسطینی اقلیت میں ہیں۔غزہ کا محاصرہ کرنا اور ضروریات زندگی کی ناکہ بندی اس صرف مقصد کے لئے کی جارہی ہے تاکہ غزہ کے فلسطینی تنگ آ کر غزہ خالی کر دیں اور وہاں صہیونی فکر رکھنے والوں کو آباد کیا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ جن صہیونی فکر رکھنے والوں کو اس خطے میں لایا جاتا ہے انہیں مختلف سہولیات کا لالچ دیا جاتا ہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی باشندے بھی اب اس جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور وہ اس خطے سے نکلنا چاہتے ہیں مگر وہ ممالک جن کے اس خطے کی بدامنی سے مفاد جڑے ہوئے ہیں وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ یہاں امن قائم ہو۔
Urdu column, Differentiate between Judaism, Christianity and Islam,