سچا وعدہ، پروفیسر قیصر عباس
سچا وعدہ، پروفیسر قیصر عباس
گزشتہ سال اکتوبر میں فلسطینی جماعت حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا تھا حماس نے اس حملے کو “طوفان الاقصی” کا نام دیا تھا حملے کے بعد اسرائیل کی بربریت جو کہ کئی سالوں سے جاری تھی میں٫ بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا جو ابھی تک جاری ہے ۔چند دن پہلے فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اور سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹوں اور چار پوتے پوتیوں کو ایک حملے میں شہید کر دیا گیا یاد رہے اسماعیل ہنیہ اس وقت قطر میں قیام پذیر ہیں۔اسرائیل کی طرف سے ایسے ظالمانہ اقدامات رکنے کا نام نہیں لے رہے ۔اسرائیل نے اپنی جارحیت صرف معصوم فلسطینیوں تک محدود نہیں رکھی بلکہ وہ لبنان اور شام کو بھی ٹارگٹ کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ اگرچہ لبنان اور شام میں رہنے والے اکثریتی آبادی کا فلسطینی عوام سے مسلکی اختلاف ہے کیونکہ فلسطین میں سنی مسلمان آباد ہیں جب کہ شام اور لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر اس مسلکی اختلاف کے باوجود ان ممالک کے عوام کی دلی ہمدردی فلسطینی عوام کے ساتھ ہے اس کی ایک اور وجہ ایران بھی ہے کیونکہ ایران٫ لبنان میں موجود حزب اللہ کو سپورٹ کرتا ہے جس کی وجہ سے اگرچہ اسرائیل براہ راست تو ایران کو ٹارگٹ نہیں کر سکا مگر شام اور لبنان میں ایرانی فوج کے بڑے عہداران کو نشانہ بنا چکا ہے۔ان نشانہ بننے والوں میں بڑا نام جنرل قاسم سلیمانی کا ہے جن کو عراق میں ٹارگٹ کیا گیا تھا ۔اسی ماہ شام میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے ایرانی حکام نے اسرائیل پر راکٹوں اور میزائلوں کی بارش کر دی اور اس آپریشن کو” سچا وعدہ”کا نام دیا گیا۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران نے 100سے زیادہ ڈرونز اور کروز میزائلوں سے حملہ کیا جس سے اسرائیل میں خوف کی فضا پھیل گئی جب کہ اسرائیلی فوجی اہلکار اور شہری زیر زمین محفوظ پناہ گاہوں میں جانا شروع ہوگئے٫ اسرائیل میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ٫سکولز اور کالجز کو بند کر دیا گیااور بجلی کی سپلائی بھی رک گئی۔ اس حملے کے بعد ایرانی سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منایا گیا دوسری طرف اس حملے کے بعد فلسطینی بھی سڑکوں پر نکل آئے اور مسجد اقصیٰ میں” اللہ اکبر” کی صدائیں بلند ہوئی ۔یہ ایران کا اسرائیل پر براہ راست دوسرا حملہ ہے اس سے پہلے 1948ء کی” عرب اسرائیل جنگ” میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا مگر بدقسمتی سے اس جنگ میں عرب دنیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔1969ءمیں اسلامی ممالک کی تنظیم OIC کی بنیاد جب مراکش کے شہر رباط میں رکھی گئی تو اس کی بنیادی وجہ بھی اسرائیل ہی تھا کیونکہ کچھ اسرائیلی شر پسند عناصر نے مسجد اقصیٰ کو آگ لگا دی تھی جس کے بعد مسلم ممالک کی طرف سے ایک شدید قسم کا ردعمل دیکھنے کو ملا۔لیکن اردن اور مصر نے اچانک اسرائیل کو تسلیم کر کے پوری اسلامی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔ اب بھی ترکی اور چند ایک اسلامی ممالک نے اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کر رکھا ہے ۔جب کہ اسلامی ممالک کی اکثریت خصوصا ایسے ممالک جہاں جمہوریت کی بجائے آمریت ہے چاہے بادشاہت کی شکل میں یا پھر فوجی لبادے میں ٫ان ممالک نے غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے ۔تمام اسلامی ممالک میں ایران اور پاکستان صرف دو ایسے ممالک ہیں جو اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست تصور کرتے ہیں ان دونوں ممالک کے نزدیک اسرائیلی فلسطینی سرزمین پر قابض ہیں ۔اگر ایران اور پاکستان کا موازنہ اسرائیل کی مخالفت کے حوالے سے کیا جائے تو ایران کا رویہ اس حوالے سے زیادہ سخت اور بے لچک ہے۔”یوم القدس” رمضان کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے اس کا آغاز بھی ایران سے ہی ہوا ہے جو کہ اب تقریباً تمام اسلامی ممالک میں پورے جوش وخروش سے منایا جارہا ہے ۔اب ایک نیا سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ایران کے ڈرونز اور میزائلوں سے اسرائیل کو کوئی نقصان بھی ہوا ہے یا نہیں؟ ابھی اس بارے کوئی بھی مصدقہ اطلاع نہیں ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ موجودہ دور میں جہاں اسرائیل کی جارحیت کے حوالے سے بات کرنا کسی جرم سے کم نہیں وہاں ایران کا اسرائیل پر میزائل داغ دینا یہ بھی چھوٹا کارنامہ نہیں کیونکہ اسرائیل اکیلا ملک نہیں بلکہ امریکہ سمیت تقریباً تمام بڑے بڑے ممالک کی پشت پناہی اسرائیل کو حاصل ہے خصوصاً ایسے ممالک کی جو کہ دنیا کی معاشی طاقتیں تصور کی جاتی ہیں ۔اس لئے ایران کا حملہ جسے “سچا وعدہ”کا نام دیا گیا ہے اسرائیل کی تباہی کے حوالے سے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
پروفیسر قیصر عباس!
In October of last year, the Palestinian group Hamas attacked Israel with rockets. urdu column, column in urdu, true promise,