موسمی غدار، پروفیسر قیصر عباس
موسمی غدار، پروفیسر قیصر عباس
ارض پاک میں غداروں کی فراوانی ہے۔جب بھی موسم بدلتا ہے تو نئے غدار منظرعام پر آتے ہیں ۔جب اس ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس کے شروع کے دنوں میں نیشنل عوامی پارٹی” نیپ”کے لیڈران اور کارکنان غدار کہلائے اور آج کے “کے پی کے”اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں اس پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔محب وطن خان عبد القیوم خان کی زیر قیادت ایک محب وطن حکومت قائم کردی گئی ۔اس حکومت نے صوبہ سرحد میں کیا گل کھلائے وہ الگ بحث ہے۔1947ء سے لیکر 1958ء تک گورنر جنرل ملک غلام محمد سے لیکر گورنر جنرل سکندر مرزا تک سات وزراء اعظم تبدیل ہوئے اس کے بعد ایک “محب وطن ” نے ملک عزیز کی باگ ڈور سنبھالی ۔جب 1965-1964ءکے صدراتی انتخابات ہوئے تو محمد علی جناح کی سگی بہن فاطمہ جناح جس کو اس ملک کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی ٫ “غدار وطن” ٹھہریں ۔”مادر ملت” کا خطاب انہیں بعد میں دیا گیا۔پاکستان میں پہلی دفعہ 1970ء میں عام انتخابات ہوئے ۔مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے 167نشتیں حاصل کی جب کہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے 81نشتیں حاصل کی ۔اب چاہئے تو یہ تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کردیا جاتا مگر بھٹو صاحب شراکت اقتدار کی ضد پر اڑے رہے آخر کار بنگالی غدار قرار پائے اور ملک عزیز دولخت ہوگیا۔ موجودہ پاکستان میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ بنگالیوں نے پاکستان سے غداری کی۔جب ذوالفقار علی بھٹو کو مغربی پاکستان میں اقتدار ملا تو بھٹو صاحب نے بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کر دیا ۔ صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمود نے احتجاج کرتے ہوئے صوبہ سرحد کی حکومت سے استعفیٰ دے دیا اور بلوچیوں سے یک جہتی کا اظہار کیا۔بھٹو صاحب نےبلوچیوں کو غدار قرار دیتے ہوئے آپریشن کا آغاز کر دیا گیا۔آمریت کا موسم تبدیل ہوا 1988ءمیں محترمہ بے نظیربھٹو ایک سمجھوتے کے تحت وزیراعظم بنی مگر انہیں بھی “سکیورٹی رسک “قرار دیا گیا۔کارگل وار میں اختلافات کے بعد میاں محمد نواز شریف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا اور ان پر بھی غداری کا مقدمہ چلا ٫سزا بھی ہوئی مگر سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کی سفارش پر نواز شریف دوسرے بھٹو بنتے بنتے بچے۔اگرچہ ان کی جان تو بچ گئی مگر غداری کا لیبل ان پر لگ گیا۔مشرف صاحب جتنی دیر برسر اقتدار رہے بے نظیربھٹو اور میاں نواز شریف جیسے غدار ملک سے باہر ہی رہے۔لیکن اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں” قوم کے وسیع تر مفاد “میں ان دونوں غداروں کو ملک واپس آنے کی اجازت مل گئی ۔2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں ایک بار پھر سے ان” غدران ملت” کو اس “نا سمجھ قوم “نے اقتدارِ کے تحت پہ لا بٹھایا ۔مگر “محبان وطن” کو یہ کب گوارا تھا۔ ایک غدار کی حکومت کے خلاف “واٹر گیٹ سکینڈل “کے ذریعہ گھیرا تنگ کیا گیا جب کہ دوسرے کے خلاف پانامہ پیپرز اور ڈان لیکس جیسے “حقائق” منظر عام پر لائے گئے۔2018ء کے انتخابات کا میدان سجا تو نئے “محبان وطن “کا انتخاب کیا گیا مگر ان کے ساتھ بھی زیادہ نہ بنی اور اپریل 2022ء کو ان سے جان خلاصی کروا لی گئی ۔اب 2024ءکے انتخابات کا بغل بج چکا ہے تمام محبان وطن الیکشنز کی تیاریاں کر رہے ہیں جب کہ غدران وطن یا تو عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ٫قبل از گرفتاری ضمانتیں کنفرم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں یا پھر جوڈیشل و جسمانی ریمانڈ پر ہیں ۔کچھ کے کاغذات نامزدگی مسترد کر کے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہے۔جو صاحبان ایک دور میں صاحبان اقتدار ہوتے ہیں وہ اگلے دور حکومت میں غدار قرار پاتے ہیں اور جو اگلے دور میں حکومت میں ہوتے ہیں وہ اس سے اگلے دور حکومت میں غدار ٹھہرائے جاتے ہیں دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں ہمارے ہاں موسمی غدار ہیں ۔سیاسی موسم موافق ہے تو آپ محب وطن اور سیاسی موسم اگر غیر موافق ہے تو آپ غدار۔
پروفیسر قیصر عباس! urdu column, column in urdu, Climate Traitor,