سجی زبان اور سجی ثقافت، یاسر دانیال صابری
سجی زبان اور سجی ثقافت , یاسر دانیال صابری
گزشتہ دنوں بگروٹ میں نسالو فیسٹول کی آغاز پوری جی بی میں وحدت و یک جہتی کا پیغام تھا ساتھ ہی ساتھ بین لاقوامی شہرت یافتہ پانچ سلسلہ وار پہاڑوں اور خطرناک گلیشرز کی وادی اور سجی شناء زبان اپنی اصل روح میں بولنے والے لوگوں کی سر زمین بگروٹ وادی پر موال، دعایہ تقریب،نسالو میلہ سج گیا تھا۔عالمی پہاڑوں سے پہچان رکھنے والا علاقہ بگروٹ امن سیاحت کا حب ہے جنت نظیر وادی بگروٹ جس میں قدرتی شاہکار اور طلسماتی وادیاں خزاں میں اپنی پوشاخ تبدیل کر کے نسالو موال کا رخ اختیار کیا ہوا تھا۔اس وادی کے تہذیب قوم کی پرانی آباواجدہ کے قدیمہ اثار سے لیز، تہذیب و تمدن ،رسومات و ثقافتی اقدار کی ادائیگی سے جی بی میں قومی اتفاو وحدت کو فروغ ملا جو امن کے امین ہے ۔گلگت بلتستان جہاں چار
موسموں کی بہار پر مختلف رسومات کی ادائیگی دیگر ممالک یا ذیلی ثقافتوں کی توجہ کا مرکز اور اپنائیت کا مفہوم بیان کرتا ہے وہاں پر سردیوں کی آمد کے ساتھ اجتماعی دعایہ تقربیات جس میں سردی سے احتیاط اور موسم بہار کا خیر مقدم تھا ۔ گلگت بلتستان کے بگروٹ جیسے علاوقے جس میں oral traditions اپنی اصلی روح کے ساتھ خالص سجی زبان (جس کو پریوں کا زبان بھی کہتے ہیں) شیناء کے لہجے زندہ ہیں اور اصلی شکل میں سنی اور بولی جاتی ہے ۔گلگت بلتستان کا شناء زبان کو عالمی شہرت بھی حاصل ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں سب سے پہلے یہی شیناء زبان بولی جاتی تھی ہیں اور اس زبان کو ایک اہم اسلامک شہرت جس میں قرآن مجید کا ترجمہ شناء زبان میں مکمل کر کے ملا قرآنِ مجید کا تاریخ میں پہلی بار شینا میں ترجمہ ہوا ہے،مترجم جناب شاہ مرزا صاحب گلگت کے علاقہ جلال آباد سے ہیں،جن کو خدا نے توفیق دی کہ پہلی بار شینا ترجمہ کرنے کا۔کلام اﷲ کا ترجمہ کرنا اول تو اردو جیسی بڑی زبانوں میں مشکل ہوتا ہے تو ایک زبان جس کے ابھی ابھی قاعدے لکھ رہے ہوں اور ذخیرہ الفاظ کی کمی ہو مشکل تر ہے۔ لیکن شناء زبان کو یہ شہرت بھی حاصل ہوا
گلگت ریجن میں شینا زبان کے متعلق اردو اور شینا میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان مین سر فہرست:
ڈاکٹر محمد شجاع ناموس کی صغیم کتاب ”گلگت اور شینا زبان“ جو 1956 میں شائع ہوئی؛
محمد امین ضیاء کا شعری مجموعہ ”سان“ جو 1974 میں شائع ہوا؛
محمد امین ضیاء کی کہاؤتوں کی کتاب ”سوینو موریئے“ جو 1978جو میں شائع ہوئی؛
محمد امین ضیاء کی کتاب ”شینا قاعدہ اور گرائمر“ 1976جو میں شائع ہوئی؛
محمد امین ضیاء کی کتاب ”شینا اُردو لُغت“ 2010 میں شائع ہوئی؛
اکبر حسین اکبر کی کتاب ”سومولو رسول“ جو 1980 میں شائع ہوئی؛
گلزار اہلبیتؑ، شینا کے پرانے قصیدے، مرثیے، اور نوحوں کا مجموعہ، فضل علی فرفوحی نے 1988 میں شایع کی؛
اکبر حیسن اکبر کی کتاب ”اُردو اور شینا کے مشترکہ الفاظ“ 1992میں شائع ہوئی؛
عبدالخالق تاج کا گلگتی شینا زبان کا قاعدہ ”شینا قاعدہ“ 1989میں شائع ہوا؛
نصیر الدین چھلاسی کا شعری مجموعہ ”زاد سفر“ شائع ہو (اشاعتی تاریخ نہیں)؛
رحمت عزیز چترالی کا ”شنا قاعدہ“ جو غالباً ِ2017 یا کچھ اس سے قبل شائع ہو؛
شکیل احمد شکیل نے ددی شلوکے دو جلدیں،شینا ورک بک، الکھانوں بڙوٗن، شینا قاعدہ، شینا اردو انگریزی بول چال شایع کی؛
جنت نظیر گلگت بلتستان ، بینالاقوامی شہرت یافتہ پہاڑوں اور cknp جیاکی ٹریکس کا حب ، قدرتی شاہکاروں سے مزین طلسماتی ،وادی بگروٹ شناء زبان کی آصلی مفہوم کو زندہ رکھا گیا ۔
اسی طرح نیشنل شہرت یافتہ دیوسائی عالمی باڈروں کا حب استوار میں شناء لہجے مختلف مگر زندہ ہے رسم و روایتی انداز ثقافت موجود ہے اسی طرح راکاپوشی، لیلا بیک ١ اور بیک ٢ ،رکھن پاس، روبانی پیک،JSR روڈ کنوکشن ،عالمی شہرت یافتہ کتاب حراموش نا قابل فراموش ۔مصنف ۔مستبصر حسین تارڈ، کٹوال لیک جیسے سیاحب کا مرکز حراموش میں شناء زبان کی اصلی روح زندہ ہے
شینا زبان کا معنی کیا ہے اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ شینا کا نام شینا کس نے رکھا تھا؟ شینا پشتو زبان کا لفظ شین سے ماخوذ ہے جس
کا معنی( سر سبز ) ہے ۔تاریخ دانوں کے مطابق افغانی حکمران احمد شاہ دورانی نے 1751 میں شمالی علاقہ جات کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کے بعد شمالی علاقہ جات کی تمام زمینوں کو دو حصوں میں تقسيم کیا تھا ۔یعنی شین نوحہ (سرسبز زمین ) اور وچ نوحہ (خشک زمیں ) میں تقسیم کر کے ٹیکس کا نیا سسٹم متعارف کروایا تھا یعنی جو لوگ سرسبز علاقے میں رہتے ہیں ان سے ٹیکس زیادہ لیا کرتے تھے اور جو لوگ خشک علاقے میں رہتے تھے ان کی ٹیکس کم تھی ان ادوار میں شمالی علاقہجات کے نوے پرسن لوگ سرسبز علاقوں میں رہاکرتے تھے اسی نسبت سے شین نوحہ میں (سرسبز علاقے) میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو شینا بولا جانے لگا۔ احمد شاہ دورانی نے افغانستان اور صوبہ سرحد میں شین دند ، شین کاری اور شینا نام کے کئی مقامات کے نام بھی رکھے تھے .
بلاخر کسی بھی قوم کی پہچان اس کی زبان پر منصر ہے ۔اسی زبان کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔کسی قوم کی وحدت اسکی زبان ہے ۔گلگت بلتستان میں زیادہ بولی اور آسانی سے سمجھنے والی زبان شیناء ہیں ۔حکومت گلگت بلتستان کو چاہے کہ تدریسی اداروں میں آٹھویں کلاسز تک شناء زبان میں کتابیں پڑھائی جائیں ۔مجھے بھی شیناء لکھنا نہیں آتا کیونکہ ہم نے توجہ اپنی زبان پر نہیں دیا ساری عمر دوسروں کے زبانوں اردو اور انگریزی میں کتابیں لکھا۔شناء میں کچھ الفاظ لکھنے کی کوشش کرونگا۔(مھے وطنداری مے ژارے مے سجی وطینے داری توم وطنہ کار قربان باہ شوواہ)
موجودہ دورمیں شینا زبان بھی اپنی آخری سانس لے رہی ہے۔ اگر شینازبان سے وابستہ ذی ہوش افراد اب بھی نہ جاگے تو آنے والی نسلیں انہیں شاید کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اس ضمن میں دراس میں ہمارے چند نوجوان قلم کاروں نے شینا زبان میں لکھنا شروع کیاہے اور انشاء اللہ آنے والے چند مہینوں میں شینا قاعدہ اور گرائمر بھی منظر عام پر لانے کی بھر پور کوشش جاری ہے۔ شینا زبان کے ساتھ تعلق رکھنے والے اور اس زبان میں لکھنے کا شوق رکھنے والے حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنا کچھ وقت شینا زبان کی خدمت کے لیے بھی وقف کریں تاکہ اس زبان کو باقاعدہ تحریر میں لایا جاسکے۔وسلام۔۔تحریر یاسر دانیال صابری