دل کس کی مانے، پروفیسر قیصر عباس
دل کس کی مانے، پروفیسر قیصر عباس
گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ جس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے جب کہ دیگر ججز میں جسٹس مسرت ہلالی٫جسٹس منصور علی شاہ ٫جسٹس امین الدین خان ٫جسٹس یحییٰ آفریدی ٫جسٹس جمال مندوخیل٫جسٹس محمدعلی مظہر شامل تھے ۔اس سات رکنی بنچ نے 6/1 سے سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کو ختم کردیا ہے ۔اس فیصلے سے جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کیا جب کہ باقی چھ ججز نے کثرت رائے سے سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی کو ختم کر دیا ہے۔اس مقدمہ میں فوری طور پر دو سیاستدانوں کو ریلیف ملا ہے ایک سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جب کہ دوسرے آئی پی پی کے چیئرمین جہانگیرخان ترین ہیں۔کیونکہ ان دونوں شخصیات کو اس سے پہلے سپریم کورٹ کے ہی ایک بنچ نے جس کی سربراہی سابق چیف جسٹس عظمت سعید کھوسہ کر رہے تھے ٫نے تاحیات نااہل کیا تھا۔موجودہ فیصلے میں سپریم کورٹ کے معزز بنچ نے آئین کے آرٹیکل 62( ایف)کی تشریح بھی کر دی ہے اور اس آرٹیکل کے تحت تاحیات نا اہلی کو ختم کر کے نا اہلی کی مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔اس کے ساتھ اس بنچ نے آئین کے آرٹیکل (3)184کی بھی وضاحت کردی ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کے پاس کسی سیاستدان کو تاحیات نا اہل کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں اور اب وہ چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہیں بلکہ اب تک تو ان کی وزیر اعظم والی شیروانی بھی سل چکی ہوگی ۔دوسری طرف جب جہانگیر خان ترین کو نا اہل کیا گیا تھا تو بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس عمل کو “Balancing Act”کا نام دیا تھا کیونکہ میاں نواز شریف کی نا اہلی کو قانونی ثابت کرنے کے لئے تحریک انصاف کے کسی بڑے رہنما کی بھی نااہلی ضروری تھی اس لئے اس وقت جہانگیر خان ترین کو نااہل کیا گیا تھا جس کا دوہرا فائدا ہوا تھا پہلا یہ کہ عمران خان کو تحریک انصاف میں چیلنج کرنے والا کوئی شخص باقی نہیں رہا تھا اور دوسرا یہ ثابت کرنا تھا کہ قانون سب کے لئے برابر ہے اگر میاں صاحب نا اہل ہوئے ہیں تو جہانگیر خان ترین بھی تو نا اہل ہوئے ہیں نا۔بہرحال میاں صاحب قسمت کے دھنی ہیں آج سے دو سال پہلے جب عمران خان ایوان وزیراعظم کے مکین تھے ان کی معتمدِ خاص جناب عارف علوی ایوان صدارت میں تشریف فرما تھے اور روالپنڈی میں خان صاحب کی” طبیعت کے موافق ہوائیں “چل رہیں تھی تو کس نے سوچا تھا کہ یہ وقت بھی آئے گا کہ خان صاحب اڈیالہ جیل کی کوٹھری میں ہونگے اور جناب میاں صاحب چوتھی دفعہ اس ملک عزیز کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تیاریاں کر رہے ہونگے؟کل کے “فیصلہ ساز” آج عدالتوں میں قبل از گرفتاری کی ضمانت کنفرم کروانے کے لئے دوڑ دھوپ کر رہے ہونگے۔اسی کا نام زندگی ہے اور اسی کھیل کو قدرت کا کھیل کہتے ہیں۔میاں نواز شریف پاکستان کے وہ واحد سیاسی لیڈر ہیں جو جیل گئے ٫ جلاوطن کئے گئے اور پھر سے وزیراعظم بننے کے لئے تیار ہوئے۔لیکن 2017ءمیں جب میاں صاحب کو نااہل کیا گیا تھا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے گے اور یوں اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرلیں گے کیونکہ اس وقت جناب عمران خان کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا ۔اس ساری صورتحال میں ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ عمران خان کے “عقیدت مندان” کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اگر ان سارے کٹھن حالات کے باوجود میاں صاحب کی واپسی ہوسکتی ہے تو عمران خان کی کیوں نہیں؟ملک عزیز میں ہر انہونی ہوسکتی ہے ۔اس سارے معاملے میں ایک خوشخبری جیالوں کے لئے بھی ہے اگر میاں صاحب چوتھی دفعہ اس ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں تو جیالوں کو بھی ناامید نہیں ہونا چاہئے ان کے نوجوان چیئرمین کی جب “ضرورت مندوں”کو ضرورت پڑے گی تو وہ بھی اس ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے۔ اس لئے جیالے بھی دل چھوٹا نہ کریں۔لیکن اس ساری صورتحال میں ایک بات کافی پیچیدہ ہے جس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل لگ رہا وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا وہ بنچ درست تھا جس نے میاں صاحب کو نااہل کیا تھا یا یہ والا بنچ درست ہے جس نے میاں صاحب کو اہل کر دیا ہے ؟کیا وہ ججز غلط تھے یا آج والے ؟آخر یہ نادان دل کس کی مانے؟
پروفیسر قیصر عباس!
urdu column, column in urdu