افسانچہ ، معصوم ہاتھوں کی کہانی ، آمینہ یونس
سردیوں کے دن تھے۔ ہوا میں ایسی خنکی تھی کہ یخ بستہ ہوا ہڈیوں تک اترتی محسوس ہوتی تھی لوگ گھروں کے اندر انگھیٹی کے پاس بیٹھے گرمی سمیٹتے، جبکہ بچے سردی کو بھول کر اپنے کھیل میں مگن رہتے۔ انہی دنوں دانیال کا ایک اپنا ہی مشغلہ تھا۔ وہ روز پرانی کاپیاں سنبھالتا اور گھر کی چھت پر چڑھ جاتا۔ وہاں بیٹھ کر اپنے ننھے معصوم ہاتھوں سے کاغذ کے جہاز بناتا اور ہوا کے سپرد کرتا۔ جب کوئی جہاز دور تک اُڑ جاتا تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھتیں اور جب کوئی جہاز ہوا کا دباؤ نہ سنبھال کر قدموں میں آ گرتا تو اس کے چہرے پر مایوسی تیر جاتی۔ یہی اس کی سردیوں کی چھٹیوں کا پسندیدہ کھیل تھا۔ ایک دن دادا ابا نے اسے چھت پر دیکھا۔ کچھ دیر خاموشی سے اس کے شوق کا مشاہدہ کرتے رہے، پھر مسکرا کر بولے، “دانیال بیٹا، ایک جہاز مجھے بھی دو۔ میں بھی اُڑانا چاہتا ہوں۔” دانیال حیران ہوا، “سچ میں دادا ابا؟ آپ کو میرا کھیل اچھا لگتا ہے؟” دادا ابا نے نرمی سے جواب دیا، “جی بیٹا… یہ صرف کھیل نہیں۔ تمہارے معصوم ہاتھ ابھی سے اپنا مستقبل لکھ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے تمہیں جہاز اُڑانے کا شوق ہے۔” دانیال کی آنکھوں میں امید کی کرن جگمگائی، “تو کیا میں بڑے ہو کر اصلی جہاز بھی اُڑا سکوں گا؟” “اگر شوق کے ساتھ محنت کرو، تو کیوں نہیں!” دادا نے محبت سے کہا۔ گھر والوں نے اس بات کو بچوں کی دلچسپی سمجھ کر ہنسی میں ٹال دیا، مگر دانیال نے اسے ٹالا نہیں۔ اس نے اس خواب کو اپنے دل سے لگا لیا اور محنت کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ سالوں بعد جب وہ پائلٹ بنا اور پہلی بار کاک پٹ میں بیٹھا، تو اس نے اپنے ہاتھوں کو دیر تک دیکھا۔۔۔۔ “وہی ہاتھ “جو کبھی سردیوں میں چھت پر کاغذی جہاز اُڑاتے تھے۔ آج وہی معصوم ہاتھ اسے آسمانوں کی وسعتوں میں اُڑا رہے تھے۔ اور دادا ابو کے کہے لفظوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی اس کے سپنوں کو تعبیر مل چکی تھی
Story of Innocent Hands
مصروفیت کے ملبے تلے دبی انسانیت، یاسر دانیال صابری




