” جمہوریت سقراط کو زہر پلاتی ہے . فدا علی راہی
جمہوریت تحریر :فدا علی راہی
مکتب جمہوریت کے جتنے بھی دستور ہیں
فر د ملت کی ذلالت کے سواء کچھ بھی نہیں
مجھے اس چیز کا مکمل شعور ہے ،کہ میری کا لم نگاری اتنی عمر رسیدہ اور پختہ نہیں کی جمہوریت جیسے وسیع الجہت، نہایت حساس نوعیت اور عالم گیر شہرت کے حامل مو ضوع کو اپنی بے باک قلم زنی کا نشانہ بنا رہا ہوں ۔ یہ ایک لحاظ سے اس مو ضوع اور اس نظام کے طفیل اقتدار کے ایوانوں میں برا جمان ہو نے والے پیشہ ور آقاؤں کی شان بے نیازی میں جسارت کے زمرے میں آنے کا بھی قوی امکان اپنی جگہ مو جو د ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کی اس سے تو قیامت زدہ اس سماج پر ایک اور قیامت تو ٹوٹ نہیں پڑے گی ۔ ہم اسی سماج کے باسی ہیں ۔اپنے سماج کی عمرانی ،سیاسی اور معاشی صور ت حال سے ہم مکمل نہ سہی کسی حد تک آگاہ ضرور ہیں ۔ سماج میں پیدا ہو نے والے تغیرات و انقلابات اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات کی اندرونی کہانیوں سے باخبر ہو نے کا دعوی ہم نے کبھی نہیں کیا لیکن آنکھوں کے سامنے رونما ہو نے والے واقعات سے چشم پو شی بھی نہیں کر سکتے ۔
نیم مہارت کے حامل افراد سے رہنمائی حاصل کر نا ہمارے سماج کا از لی و طیرہ رہا ہے ۔خواہ تعلیم کا شعبہ ہو یا سیاست کا بلکہ دینی معاملات عشروں سے مکمل طور پر نیم ملاؤں کے قبضے میں چلے آرہے ہیں ۔ اسی طر ح ہماری صحافت بھی انہی افراد کے ہاتھوں اسیر ہے۔ مجھ جیسے ایک نو خیز لکھاری یا تجزیہ کار حالات پر تبصرے کرتا ہے تو اہل سماج ان تبصروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اہل سماج کےا س رویے سے مجھے بھی شہ ملی کہ میں بھی ان مو ضوعات پر تبصرہ کروں ۔ لیکن جہاں تک میرے ان تبصروں کا تعلق ہے کہ یہ تبصرے میر ی کج فہمی اور ذہنی اغتراع کا محصول نہیں تاریخ کے تابندہ اور درخشان شخصیات کے تجر بات کو چن چن کر قارین کےفہم و ادراک کے دریچوں کی دہلیز تک پہنچانے کیلئے ہم نے اپنی بساط سے کہی زیادہ کو شش کی ہے۔ چو نکہ ہمیں اپنی کم علمی کا احساس ہے ہم اعتراف کرتا ہوں کہ ہم زندگی کے کسی بھی شعبے میں کسی خصو صی مہارت کا حامل فرد نہیں ۔ محض بڑے لو گوں کی بڑی کتابوں سے اخذ کر دہ معلومات قارین کی سماعتوں اور بصارتوں تک پہنچانے کے ایک ادنی ٰ وضیفے پر عمل پیرا ہیں ۔
مختصر الکلام بات سے بات نکلتی گئی اور اصل مو ضوع سے کچھ دور ہی جا نکلے گذشتہ ایک عرصے سے ہماری یہ خو اہش تھی کی ایک دفعہ معمول کے مو ضوع سے ہٹ کر ایک کالم لکھا جا ئے اگر چہ ہمارا اصل مو ضوع زبان و ادب ہے لیکن جمہوریت اور اس نظام سے مر بوط افراد کے روز مرہ کی تباہ کن اور حیران کن سر گرمیوں نے ہماری قلم کو مہمیز کر کے رکھ دیا۔ زیر نظر کالم میں جمہوریت کی خامیا ں ہی زیر بحث رہیں گی چو نکہ یقینا اس نظام میں چند خوبیاں بھی مو جود ہیں ۔ ان خو بیوں کی اعداد شمار اجاگر کر نے میں دنیا جہاں کی جمہوریت نواز حکومتوں کے میڈ یا جس میں پر نٹ سو شل اور الیکڑا نک تینوں برابر کے شریک ہیں و گذشتہ اڑہائی صدی سے اپنی تمام تر توانیاں صرف کر رہے ہیں و ہاں ایسے عالم میں اس نظام کی خامیاں گننے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہو گی ۔ لیکن اس کے باو جود ان حالات سے خایف نہیں ۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ہم جمہوریت کے ان ناقدین کی تنقیدی آراء قارین تک بہم پہنچا نے کی کو شش کر رہیں ہیں جو اقوام عالم میں غیر متنا زعہ علمی شخصیات کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں ۔ صدیوں سے ان کی تعلیمات تما م انسانو ں کیلئے یکسان افادیت کی حامل رہی ہیں ۔ تاریخ انسانی کا دامن ان عظیم شخصیات کے شاہ کار علمی و فکری کارناموں سے بھری ہوئی ہے۔ تاریخ انسانیت میں جو عظیم انسان اپنی منفرد خوبیوں کے حوالے سے سب سے بڑا غیر متنا زعہ پہچا نا جاتا ہے وہ سقراط کی ذات ہے۔ جس نے انسانی تاریخ پر زبر دست اور دور رس اثرات مرتب کیے ۔ جس نے یہ کہتے ہوئے جیل سے فرار ہو نے سے انکار کر دیا کہ “ہمارے آباؤ اجداد اور ماں باپ سے قیمتی شے ہمارا اپنا ملک ہے۔ جس کی عزت و احترام اور تقدس ہم پر لازم ہے کیو نکہ یہی خدا کا فیصلہ اور یہی تمام سمجھدار انسانوں کی رائے ہے۔ ”
سقراط 469ق م میں یو نان کے مشہور شہر ایتھنز میں پیدا ہوا ، یو نا ن کی شہری ریاستوں میں مختلف تین نظام حکومت بادشاہت، حکومت الخاصہ یعنی مخصوص لوگوں کی حکومت اور جمہوریت رائج تھے ایتھنز میں جمہوریت کا آغاز 400 ق م میں ہوا ۔
سقراط کا شمار تاریخ انسانی کے مضبوط اور توانا ناقدین جمہوریت میں ہو تا ہے۔ اسے جن الزامات کے تحت قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑی اور زہر کا جام پینا پڑا ان میں سے ایک بڑا الزام اس کا جمہوریت مخالف ہو نا ہے۔
“ایک زمانہ ایسا آیا کی ایتھینز میں تیس آدمیوں کی ایک پٹھو حکومت معرض وجود میں آئی پھر ایک مسلح جدوجہد کے بعد چار سو تین قبل مسیح میں ایتھنز آزاد ہو کر جمہوریت کی گود میں گرا تو جمہوری پارٹی کا طاقت ور لیڈر اینی ٹاس جو جمہوریت پر شدید تنقید کے باعث سقراط کے پہلے ہی مخالف تھا ، زبردست مخالف ہو گیا ۔ زینوفان کے مطابق معترض نے اس بات کا زبردست پروپیگنڈا کیا کی سقراط اپنی ساتھیوں کومروجہ آئین کو حقارت کی نظر سےدیکھنے کی تر غیب دیتا ہے۔ اور اس بات کا شدید مخالف ہے کہ حکمرا نوں کا انتخاب عوام کرے” ۔ (ما خوذ سقراط حیات تعلیمات فکرو فلسفہ صفحہ نمبر 45،46 )
جتنی سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی اعتراضات سقراط نے نظام جمہوریت پر اٹھائے ہیں اتنےتاریخ انسانی میں کسی دوسرے نے نہیں اٹھائے اس کا ہر نکتہ اعتراض الہی قوانین سے ہم آہنگ اور انسانی فکر وشعور کا تر جمان ہے۔
جمہوریت کے حامی ان اعتراضات کے شایان شان جواب پیش کر نے سے اب تک ناکام چلے آرہے ہیں ۔ سقراط انسانی سماج کے مشکلات سلجھانے کے جداگانہ گر سے بخوبی واقف اور اسی جداگانہ گر کے ہی قائل تھا۔ چنانچہ وہ اپنے زندگی کے اختتام تک اسی روش پر قائم رہا ۔ اور اسی وجہ سے ہی وہ انسانی تاریخ میں جداگانہ مقبولیت اور شہرت کا حامل رہا ہے۔ ان کی تعلیمات انسانی سماج کے مسائل کے حل کیلئے مطلو بہ استطاعت اور مسئو لیت رکھتی ہے وہ انسانی سماج میں رائج نظامہائے حکومت کو نسبتا دوسرے معاملات انسانی کے زیادہ حساسیت کا حامل سجھتا تھا یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیمات اور فکر و فلسفہ پر یہی مسئلہ حاوی رہا اور اسی نقطے پر اس نے شدید اعتراض بھی کیا۔ حصوصا جمہوریت کو سقراط نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ
“ہر اس شہری کو صرف اس وجہ سے کی وہ عاقل بالغ ہے حکومت چلانے کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی گلی میں چلتے ہو ئے شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بادشاہ یا حکمران کا انتخاب کرے وہ شخص اس بنیاد پر کہ اسے عوام نے چنا ہے حکمران کہلانے کا حق دار نہیں ہے ۔ بادشاہ یا حکمران صر ف وہی ہو سکتا ہے جو جانتا ہو کہ ملک کیسے چلانا ہے ۔”
سقراط کی جمہوریت پر تنقید کا دائرہ اتنا تنگ نہیں کہ چند جملوں پر مشتمل ہو لیکن مضمون کی طوالت کے پیش نظر مندجہ بالا تنقیدی آرا پر اکتفا ء کر تا ہوں اگر چہ سقراط کے پیش رو اور بھی ناقدین جمہوریت انسانی تاریخ میں رہے ہوں گے لیکن وہ سقراط جیسی شہرت و مقبولیت کے قابل نہیں ٹھرے۔ اسی طرح سقراط کے ما بعد بھی ناقدین جمہوریت کی کو ئی کمی نہیں لیکن ان سب کو چھوڑ کر علامہ اقبال کو بطور ناقد زیر بحث لاتا ہوں ۔ چونکہ ان کے افکار و نظریات ابھی تاریخ کے صفحات پر تازہ اور تحریف کی گزند سے کسی حدتک محفوظ ہیں ۔
جمہوریت علامہ اقبال کی نظر میں
علامہ اقبال کی شخصیت محتاج تعارف نہیں انیسویں صدی کے عظیم مسلمان رہنما ء اور نظریہ پاکستان کے خالق ہیں ۔ ان کے فکر و فلسفہ اور شاعری نے اس خطے کی مسلمانوں کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہو نا چا ہیے کہ علامہ اقبال کاشمار بھی جمہوریت کے ناقدین میں ہو تا ہے۔ اقبال وہ واحد اور توانا شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام میں ملوکیت کے خلاف اصولی موقف اپنایا اور ملوکیت کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت بلند کیا ۔ البتہ ان کے طر ز بغاوت اور دوسرے ملوکیت مخالفین کے طرز بغاوت میں واضح فرق موجود ہے۔ اس فرق کو واضح کر نا زیر نظر مضمون میں گنجائش کی کمی کے پیش نظر اس کی نشریح و تفسیر سے احتراض کرنا بہتر سمجھتا ہوں تا کہ مضمون اپنے اصل مقصد سے ہٹ نہ جا ئے ۔ اس بات میں کو ئی شک و شبہ نہیں کہ جمہوریت سے پہلے عالم اسلا م کے روشن ضمیر اور علوم قدیم و جدید سے بہرہ مند شخصیات ملو کیت کے خلاف صف آرا رہی اس نظام کے خلاف جہاد باالقلم اور جہاد بالسیف دونوں جہتوں کا سہارا لیا گیا ۔ جب ملو کیت سے قدرے آزادی ملی تو اس آزادی کا نتیجہ مو جودہ جمہوری حکومتوں کی شکل میں نکلا اس سے اقبال بلکل غیر مطمئن تھے۔
عبدالسلام ندوی اپنی تصنیف “اقبال کامل” کے صفحہ نمبر 387 پر اقبال کی جمہوریت مخالفت کی وجہ یوں بیان کر تے ہیں ۔
” اقبال نظام جمہوریت کو نظام حکومت کی کو ئی بہتر شکل نہیں سمجھتے تھے۔ اگر چہ انیسویں صدی کے اواخر میں جمہوریت کو بہترین نظام حکومت خیال کیا جا تا تھا مگر بیسویں صدی آوایل میں یو رپ کے بعض مفکرین نے اس طرز حکومت پر شدید حملے کئے ۔ نٹشے ، لیبان ، فان ٹرنشگی، تنگلزہ ، سٹوڈرڈ اور میگلڈوگل وغیرہ ایسے مفکرین ہیں جو جمہویت کے خلاف اصولی تنقید کر نے میں پیش پیش رہے ہیں ۔ ان مذکورہ مفکرین نے جمہوریت کے خلاف چند دلائل پیش کئے ہیں ان میں سے صرف دو دلائل آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ چو نکہ اقبال کے جمہوریت مخالفت دلائل بھی انہی مفکرین کی دلائل سے مکمل ہم آہنگ ہیں ۔
1۔ اس میں اعلیٰ دماغ اور شخصیتوں کو قابلیت کے اظہار کا موقع نہیں ملتا جس کی وجہ سے قوم میں ذہن اور فکر کی تربیت مسدود ہو جا تی ہے ۔
2۔ اس وقت یورپ میں جو جمہوری نظام حکومت قائم ہے وہ عملا ملوکیت ہی کی شکل ہے فرق صرف یہ ہے کی پہلے جبرو استبداد مطلق العنان بادشاہ کیا کر تے تھے اب اسی کو جمہوری حکومتیں قومی بھیس بدل کر رہی ہیں۔ اس بارے میں اقبال کہتے ہیں ۔ وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پروں میں نہیں غیرا ز نوائے قیصری
جمہوریت اندرسے کچھ اور اگر باطن میں جھانکنے کی کو شش کرےتو اس کی اصلیت آپ پر آشکار ہو جائے گی
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری مظام
چہرہ روشن اندون چنگیز سے تاریک تر
اقبال کی تنقیدی آرا کو جامہ پہنانے کی میرے اندر جرات نہیں اسی لئے اقبال کی آرا کو من و عن پیش کر رہا ہوں جو تاریخ میں مرقوم ہیں ۔ الغر ض اقبال کے جمہوریت پر کئے گئے اعتراضات کا سلسلہ ختم تو نہیں ہوا اگر چہ اس مو ضوع پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن ذیل میں دو اور جمہوریت مخالف ناقدین کی آرا کا اجمالی جائزہ لینا مطلوب ہے لہذا اقبال کی تنقیدی آرا کا سلسلہ یہاں روک لیتا ہوں ۔
امام خمینی کی نظر میں جمہوریت
امام خمینی بیسویں صدی کے عظیم انقلا بی مسلمان رہنما ء ہیں مسلکی اور مذہبی حدود قیود کے قطع نظر ایران کا انقلاب اسلامی بیسویں صدی کا ایک عظیم واقعہ ہے ۔ اما م خمینی اس انقلاب کے بانی اور روح رواں تھے ان کی تمام علمی آرا کو زیر بحث لانا مقصود نہیں محض جمہوریت مخالف علمی و سیاسی نظریے کو ضبط تحریر میں لا تے ہو ئے ہم اپنے مو ضوع کے تسلسل کو جاری رکھتے ہیں ۔
حد اعتدال پر قائم تمام مسلم اور غیر مسلم دانش ور امام خمینی کے اصلاحاتی پروگرام کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ دنیا کے گو شے گو شے میں ان کے فکری حلیف مو جو د ہیں ۔
امام خمینی انسانی معاشرے میں مو جود حکومتوں کو چار گرہوں میں تقسیم کر تے ہیں ۔ لیبرل ڈیمو کریسی ، ڈکٹیٹر شب، مشروطہ سلطنتی اور اسلامی اگر چہ امام خمینی نے انسانی معاشرے میں رائج تمام نظام حکومت کے نقائص اور خوبیاں بیان کی ہیں لیکن فی الوقت ہماری ضرورت جمہوریت کی خوبی یا خامی ہے چنانچہ امام خمینی کی وہ تنقیدی آراپیش خدمت ہیں جو جمہوریت سے مربوط ہیں ۔ نظام جمہوریت کی بہت سی اقسام بیان کی ہیں اور ان کو کا فی صراحت کے ساتھ زیر بحث لا ئی ہے ان میں سے چند سطور پر مشتمل آرا پیش خدمت ہیں ۔ لیبرل ڈیموکریسی کے ضمن میں “امام خمینی کا سیا سی نظریہ ” نامی کتاب کے صفحہ نمبر 50 پر امام فرماتے ہیں کہ ڈیموکریٹی حکومت ایسی حکومت ہےجس میں عوامی نمائندے قانون سازی کر تے ہیں جب کی امام قانون سازی کے موضوع پر مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 39 پر قانون اور آزادی کے عنوان کے ذیل میں کہتے ہیں۔ کہ
“اسلام قانون کا دین ہے وہ قانون کہ حضرت محمد ؐبھی اس کی خلاف ورزی کرنے پر قادر نہیں تھے اور خلاف ورزی نہیں کر تے تھے خدا وندعالم حضرت محمد ؐسے فرماتا ہے ، کہ اگر ایک حرف بھی خلاف واقع بو لے تو تمہاری شہ رگ کاٹ دوں گا ۔ قانون کا حکم ہے قانون الہٰی کے علاوہ کسی چیز کی حکومت نہیں ہے ۔ حکومت کسی کیلئے نہیں ، فقیہ یا غیر فقیہ سب قانون کے تحت عمل کرتے ہیں ”
امام فر ماتے ہیں کی کو ئی بھی حاکم قانون ساز نہیں سوائے اس اللہ کے، حضرت محمد ؐ جیسی ہستی کیوں نہ ہو اللہ کے قانون کو بندوں پر لاگو کر نے والے ہیں ۔ جبکہ دور جدید کے جمہوریت نواز حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ قانون سازی کر سکتی ہے ۔
قانون سازی بندوں کے دائر ہ قدرت اور اختیار میں نہیں امام اس کی تو جیہ بیان کر تے ہو ئے فرماتے ہیں کہ
” غیر انبیاء ؑ کے تو سط سے وجود میں آنے والی حکومتیں جہاں تک ان افراد کی سو چ ہے اگر ہم فرض کریں کہ یہ سو فیصد امانت دار ہیں اور اپنی قوموں کا درد رکھنے والی ہیں لیکن انسانی سوچ کا دائرہ دیکھنا چاہئے کی کہاں تک ہے اور انسان کہاں تک تر قی کر سکتا ہے اور انسان کی ضروریات کس قدر ہیں کیا انسانی وجود کی وسعت اور انسان کے اندر ترقی کی قابلیت کی حد تک ان غیر الہی حکومتوں کی سوچ ہے ؟ تا کہ ہم فر ض کر سکیں کہ اگر افرا د دلسوز ہوں اور خدمت کا جذبہ بھی رکھتے ہوں تو وہ قوموں کی خدمت کر سکتے ہیں یا یہ کہ ان کی سوچ محدود ہے اور اگر وہ خدمت بھی کرنا چاہے تو اسی حد تک خدمت کر سکتے ہیں ” اس کا مطلب واضح ہے کہ حکومتوں وساطت سے حاصل ہو نے والے اختیارات استعمال کر تے ہو ئے قوموں کی خدمت تو کر سکتے ہیں لیکن قانون سازی نہیں ۔
قانون سازی کی ضمن میں “امام خمینی کا سیاسی نظر یہ ” کے صفحہ نمبر 104 پر مصنف نے امام کا بیان یوں نقل کیا یہ نسبتا واضح اور روشن بھی ہے۔کہ
” خدا کے علاوہ کو ئی بھی دوسروں پر حکومت اور قانون بنانے کا حق نہیں رکھتا عقل کے مطابق خدا کو خود لو گوں کیلئے حکومت اور قانون بنانا چاہیے یہ وہی اسلا م کے قوانین ہیں جو اس نے بنائے ہیں اس کے بعد ہم ثابت کریں گے کہ یہ قوانین ہمیشہ کیلئے ہیں اور سب کیلئے ہیں۔ ” اب جس شخصیت کے جمہوریت مخالف اعترا ضات پیش کر نے جا رہا ہوں وہ واصف علی واصف ہیں واصف کی ذات سے میں مکمل واقف نہیں ہوں ان کی علمیت بھی زبان زد خاص و عام نہیں جس طر ح مذکورہ بالا شخصیات کی علمیت عوام میں مشہور و مقبول ہے ۔ میں اپنے آپ کو صرف اس کا م پر مامور سمجھتا ہوں کہ من وعن وہی چیز ضبط تحریر میں لا وں ۔ مضمون کے طوالت سے احتراز کے پیش نظر ان کے بارے میں رائے زنی سے گریز کروں گا ۔ جمہوریت کے بارے میں بھی ان کے اعتراضات کا دائرہ اختصار پر ہی مبنی ہو گا ۔ اپنی کتاب “قطرہ قطرہ قلزوم” کے صفحہ نمبر 168 پر عنوان “جمہوریت ” کے ذیل میں بے باکانہ اندز میں جمہوریت پر یوں معترض ہیں۔ کہ
” اول تو اللہ ہی کا ہو نا انسانوں کے ووٹوں سے نہیں اللہ خود جمہوریت کے مزاج سے بلند ہے لوگ مانیں یا نہ مانیں وہ اللہ ہے اللہ کے پیدا کئے ہو ئے انسان اللہ کو نہیں مانتے اس کی حاکمیت اور اس کی اقتدار اعلیٰ کو فرق نہیں پڑتا زمین و آسمان کے لشکر اگر با غی بھی ہو جائیں تو بھی اللہ مالک رہتا ہے ۔ فانی مخلوق کو باقی رہنے والی ذات مطلق کے وجود اور اس کی حکومت کے بارے میں ووٹ دینے کا حق ہی کیا ہے ؟
اسی طر ح اسی کتاب کے اسی عنوان کے ذیل میں دوسری جگہ کہتے ہیں کہ ” جمہوریت سقراط کو زہر پلاتی ہے منصور کو سولی پر چڑھاتی ہے ، عیسیٰ کا احترام نہیں کر تی جمہوریت کے ذریعے کوئی مفکر ، اما م ، دانش ور ، عالم دین ، ولی یا مرد حق آگاہ بر سر اقتدار نہیں آسکتا اور جو لوگ جمہوریت کے ننگے راستوں سے ایوان اقتدار میں آتے ہیں ان کو دینی حکومت کے قیام سے کیا غرض ، جب تک عوام میں حق پسند ، حق طلب اور حق آگاہ لوگوں کی کثرت نہ ہو جمہوریت ایک خطر ناک کھیل ہے ۔”
اب فیصلہ قارین پرچھوڑکر ہم اپنا سلسلہ کلا م یہیں سمیٹ لیتےہیں ۔ہم نے جمہوریت کے بارے میں اپنی طرف سے کسی قسم کی رائے زنی سے مکمل گریز کیا ہے جو کچھ اس آرٹیکل کی وساطت سے قارین تک پہنچایا ہے وہ تاریخ کی بڑی شخصیات کی علمی و فکری زندگی کا ماحصل تھا ان کو من و عن پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ اگر چہ تاریخ انسانی میں جمہوریت مخالف ممتاز شخصیات کی کو ئی کمی نہیں رہی مغرب میں روز بروز اس نظام کے معترضین کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے تا ہم صرف چار شخصیات کے اعتراضات قارین تک بہم پہنچانے ہم کامیاب رہے۔ زندگی میں اگر اللہ نے فرصت عطا کی تو باقی معترضین کے جملہ اعتراضات بھی قارین کی خدمت میں پیش کئے جائنگے۔