لمحہ فکریہ . محمدعبدالباری
لمحہ فکریہ۔ تحریر ،محمدعبدالباری
Pakistan News, Alarming Situation
انسانی زندگی کو محفوظ اور بہتر بنانے کے لئے مختلف قسم کے قوانین ترتیب دیے گئے ہیں۔ انہی قوانین پر عمل درآمد کرنے سے زندگی پر سکون،تسلی بخش، اور ہموار گزرتی ہے۔ اللہ رب لعزت نے بنی نوع انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطاء کی ہے، تاکہ انسان سوچ سمجھ کر مثل گلزار زندگی گزار سکے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔
کچھ چیزیں یا کچھ عوامل ایسے ہوتے ہیں جن کو انسان بہت اہمیت دیتا ہے۔ مثلا اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ تا ہے تو ہر شخص پہلے خود کو پچانے کی کوشش کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ذات کے متعلق ہے، کیوں کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ وہ مر جائے یا شدید درد میں مبتلا ہو جائے۔ اس کے بر عکس کچھ عوامل ، مواقع ایسے ہوتے ہیں جن کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے خصوصا پاکستان میں حالانکہ اس موقع پر سب کچھ چھوڑ کر متوجہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا ایمبولینس کی نقل و حرکت یا ایمبولینس کا استعمال۔
انکھوں دیکھا واقعہ آپ حضرات کے لئے پیش خدمت ہے۔
ایمبولینس کے سائرن کی آواز تڑپتے انسان کی، یا اوندھے منہ پڑے زخمی کی چیخ ہوتی ہے۔
ایمبولینس کو راستہ دینا کسی کی زندگی کو راستہ دینے کے مترادف ہے۔
سائرن کی آواز سنتے ہی دل کانپنے لگتا ہے۔ کیونکہ بندہ خاکسار بذات خود زندگی اور موت کی کشمکش میں دو مرتبہ ایمبولینس کا سہارا لے چکا ہوں۔
دسمبر کے مہینے میں میڈیکل ٹیم کے ساتھ ایک نجی ادارے کے ملازمین کی طبی معائنے کے لئے جانا ہوا۔ آمدورفت کے لئے ایک ایمبولینس زیراستعمال تھا۔
ایمبولینس کے اندر بیٹھے ہوئے تندرست و توانائی سے بھر پور نوجوان نسل پرلطف محفل سجائے ہوئے تھے۔ اور ساتھ ساتھ دھمی آواز میں موسیقی بھی محفل کو مزید خوشگوار بنا رہا تھا۔
جبکہ باہر کا ماحول قدرے مختلف تھا اونچی آواز میں اور مختلف ترتیب سے سائرن بج رہا تھا. گویا کہ باہر کی دنیا کو یہ احساس دلایا جا رہا تھا کہ اللہ معاف کرے کوئی قیمتی انسانی جان ضائع ہونے جا رہاہے ۔
جبکہ حاضرین سے بارہا مرتبہ اس ظلم و نا انصافی کے خلاف درخواست کرنے کے باوجود کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کی لاقانونیت، ظلم و نا انصافی برداشت نہیں کی جاتی ہے تو ہمارے یہاں کیوں ایسا نہیں ہوتے. کاش شعور ہی تھوڑ ا اجایے تو کیا اچھا ہوتا.