novel cousin friend 0

کہانی: معصوم خواہش، شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ
یار یہ بچے جا کہاں رہے ہیں؟ روز بروز کوئی نہ کوئی غائب ہو رہا ہے، علم نہیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔
محلے میں فرقان نے اپنے دوست صابر سے کہا:
“ہاں یار، کہہ تو ٹھیک رہے ہو تم، پولیس بھی اس معاملے میں کچھ نہیں کر پا رہی، بیٹھے بٹھائے مصیبت آن پڑی ہے۔”
صابر نے بھی شدید دکھ کی حالت میں کہا۔

Thank you for reading this post, don't forget to subscribe!

“چلو بچو، آئسکریم کھانے چلتے ہیں!”
ایک نقاب پوش اچانک نمودار ہوتے ہوئے بولا۔
“ن ن ن… نہیں، ہمیں گھر جانا ہے!” بچوں نے گھبراتے ہوئے زبان کھولی۔

“بس آج کی رات رک جاؤ بچو، کل چلے جانا، پھر بے شک لوٹ کے نہ آنا۔”
بچے جب بھی جانے کی بات کرتے، نقاب پوش یہی کہتا۔

غائب ہونے والے بچوں میں زیادہ تر بچیاں تھیں — نوعمر بچے بچیاں اور کچھ چھوٹے۔
“اچھا بچو، بتاؤ کوئی کھیل کھیلیں؟” نقاب پوش نے کہا۔
“نہیں، ہمیں تمہارے ساتھ نہیں کھیلنا، تم برے ہو، بہت برے!”

یہ بات نقاب پوش کے دل کو لگی۔ اگلے دن وہ اپنے ڈارک روم میں جا کر بہت رویا۔
کچھ دیر بعد باہر آیا تو سب بچوں کو تیار ہونے کو کہا اور بتایا کہ:
“آج میں تم سب کو تمہارے گھر چھوڑنے جاؤں گا۔”

“ہم کیسے مان لیں؟” بچوں نے کہا۔
“یقین نہیں آتا تو چل کر دیکھ لینا۔”
بچے پہلے پہل تو نہ مانے، پھر چل دیے۔

جب نقاب پوش بچوں کو چھوڑنے آیا تو۔۔۔
“انسپکٹر! گرفتار کر لیجئے اسے، یہی بچوں کا اغوا کار ہے!”
محلے کا ایک نوجوان لڑکا احمد بولا۔

انسپکٹر نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور تھانے کا رخ کیا۔
“بتاؤ، کیوں اغوا کیا بچے بچیوں کو؟” تھانے میں ایس ایچ او نے پوچھا۔

“میرا نام فیض ہے۔ بچے بچپن سے مجھے پسند ہیں۔
لیکن میرا تعلق اہلِ دوستی سے ہے، میں دوستی پسند شخص ہوں۔
آٹھ سال کی عمر میں میرے کچھ دوست بنے جو مجھے بلاوجہ چھوڑ گئے،
صرف اس وجہ سے کہ میری ٹانگیں ٹیڑھی ہیں۔
میں نے خود کو بہت بے بس محسوس کیا۔

پھر مجھے لگا کہ بچوں میں معصومیت ہوتی ہے۔
میں بچوں اور نوعمروں کی محفل میں جانے لگا۔
لیکن میں غلط تھا۔
بچوں میں بھی شاید معصومیت نہیں رہی۔
وہ بھی میرا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
مجھے تنہائی نے اس قدر تنگ کیا کہ میں نے بچوں اور بچیوں کو اغوا کیا خواہ چھوٹے خواہ نوعمر،،،
تاکہ ان سے کھیلوں، باتیں کروں۔

بچیوں کو بھی اغوا اس لیے کیا کہ ان سے بھی معصوم دوستی چاہتا تھا —
جیسے دو بہنوں کی ہوتی ہے، جیسے چھوٹی بہنوں سے ہوتی ہے۔
لیکن شاید میں غلط تھا۔
میں ان بیچاروں پر انجانے میں زیادتی کر رہا تھا۔
جب احساس ہوا تو چھوڑنے آگیا۔”

نقاب ہٹاتے ہوئے فیض نے آنسو صاف کیے اور سب سچ بتا دیا۔

“دیکھو، ایسا شاید تاریخ میں پہلی بار ہوا
کہ ایک پولیس والے کو مجرم پر ترس آیا ہو۔
مجھے احساس ہے تمہاری تکلیف کا،
لیکن یہ سب ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا۔

دیکھو، بے شک ہم دوست خود بناتے ہیں،
لیکن یہ سب بھی اس کاتبِ تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں
جس کے آگے ہم بے بس ہیں۔
وہ کسی کو بہت دیتا ہے، کسی کو نہیں دیتا، کسی سے لے کر دیتا ہے،
اور کسی کو دے کر لے لیتا ہے۔

لیکن میں کوشش یہ کروں گا کہ تمہیں سزا کم سے کم ہو،
نہ کہ یہ کہ تمہیں کم از کم سزا ہو۔
میرا دوست ایک وکیل ہے، وہ تمہارا مقدمہ لڑے گا۔”
انسپکٹر جمشید نے کہا۔

“حوالدار! اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے،
بغیر سختی کیے بند کر دو۔”
انسپکٹر جمشید نے آواز لگاتے ہوئے حکم صادر کیا ایس ایچ او نعیم کا بھی یہی کہنا تھا۔

مقدمہ عدالت میں گیا۔
فیض نے اقبالِ جرم کیا اور دو مہینے کی قیدِ بامشقت کے بعد رہا ہو گیا۔

اور آج وہ ایک آرٹسٹ و پینٹر بن گیا ہے۔
اب دنیا اس کی غلام ہے،
اور وہ دوستی سے بہت دور رہتا ہے۔

novel cousin friend

شگر ادبی بورڈ شگر کے زیرِ اہتمام معروف شاعر، ادیب اور صحافی مرحوم سید حسن حسرت کی یاد میں ایک پروقار اور خوبصورت محفلِ مشاعرہ بعنوان “بیادِ حسرت” منعقد ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

کہانی: معصوم خواہش، شمائل عبداللہ، گوجرانوالہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں